ضلع کرم میں مذہبی فسادات: ہلاکتوں کی تعداد 16 ہوگئی، درجنوں زخمی

پشاور (ڈیلی اردو) صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں شیعہ سنی گروہوں کے درمیان مسلح تصادم کے نتیجے میں مزید 7 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، حکام کا کہنا ہے کہ صورت حال پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں۔

نجی ٹی وی چینل ڈان نیوز کے مطابق چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک متنازع ویڈیو وائرل ہونے کے بعد دونوں فرقوں کے درمیان شروع ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں اب تک 16 لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔

ویڈیو میں موجود متنازع مواد کی دونوں فریقین (شیعہ سنی) کی جانب سے سخت مذمت کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود علاقے میں پُرتشدد فسادات پھوٹ پڑے۔

حکام نے بتایا کہ گزشتہ روز بوشہرہ کے علاقے میں 2 مسلح گروہوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں 5 لوگ مارے گئے جبکہ 2 دیگر افراد خار کلے اور بالیشخیل کے علاقوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

حکام نے بتایا کہ 4 روز سے جاری مسلح تصادم میں 23 افراد زخمی ہوچکے ہیں جبکہ گزشتہ روز ہونے والی جھڑپوں میں 10 افراد زخمی ہوئے۔

موبائل نیٹ ورکس بدستور معطل ہیں اور ضلع کے اندر اور باہر کے تمام راستے ٹریفک کے لیے بند ہیں، حکام نے بتایا کہ مقامی لوگ کا کہیں آنا جانا ممکن نہیں رہا اور ملک کے دوسرے علاقوں سے یہاں آنے والے لوگ علاقے سے باہر نہیں نکل پارہے۔

کرم کے ڈپٹی کمشنر سید سیف الاسلام شاہ نے کہا کہ کمشنر کوہاٹ ضلع کرم پہنچ چکے ہیں اور صورتحال پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں۔

ڈی ایچ کیو ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر قیصر عباس نے بتایا کہ ضلع بھر کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے، 8 زخمی تاحال زیر علاج ہیں جبکہ دیگر کو ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے۔

سابق وفاقی وزیر ساجد حسین طوری نے حکام پر زور دیا کہ مسلح تصادم میں ملوث تمام افراد کے خلاف فوری کارروائی کی جائے اور علاقہ مکینوں کی نقل و حرکت کے لیے محفوظ راستے بنائے جائیں۔

ایک روز قبل مقامی عمائدین اور عہدیداروں نے فریقین کے درمیان صلح صفائی کرانے کی کوشش کی تھی، تاہم یہ کوشش اس وقت ناکام ہوگئی جب لوئر کرم کے علاقے چرخیل میں پولیس سیکیورٹی میں جانے والی 2 گاڑیوں پر حملہ ہوگیا، اس حملے میں 4 افراد مارے گئے اور 6 زخمی ہوگئے۔

ساجد طوری نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ، فورسز اور عمائدین کی کوششوں سے صلح صفائی ہوگئی تھی لیکن افسوس ہے کہ پولیس سیکیورٹی میں جانے والی گاڑیوں پر حملے کے بعد صورت حال مزید خراب ہو گئی، امید ہے کہ آج دوبارہ صلح صفائی ہوجائے گی۔

پولیس نے بتایا کہ گاڑیاں ضلع ہنگو کے علاقے ٹل سے ضلع کرم میں پاراچنار جا رہی تھیں کہ ان پر حملہ کردیا گیا۔

حملے میں محفوظ رہ جانے والے ایک عینی شاہد طاہر حسین نے بتایا کہ پولیس نے جوابی کارروائی کی لیکن حملہ آور فرار ہو گئے۔

طوری بنگش کے قبائلی رہنما عنایت طوری اور تحریک حسینی کے صدر علامہ تجمل حسین نے حملہ آوروں کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا، اے این پی کے رہنما ثمر ہارون بلور نے بھی ضلع میں امن قائم کرنے پر زور دیا۔

انہوں نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ اختلافات سے قطع نظر یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ ہم سب انسان ہیں، اور امن ہی ترقی کا راستہ ہے، ہم صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ سے علاقے میں امن بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں