امریکی ویٹو پر ردعمل: غزہ میں ‘خون ریزی’ کا ذمہ دار امریکہ ہے، محمود عباس

غزہ (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے غزہ میں خواتین اور بچوں کی “خون ریزی” کا ذمے دار امریکہ کو ٹھہرا دیا ہے۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق صدارتی آفس سے جاری بیان میں محمود عباس نے الزام لگایا کہ غزہ میں جنگ بندی سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کر نا امریکہ کو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جنگی جرائم کا حصے دار بناتا ہے۔

محمود عباس کا بیان سلامتی کونسل میں امریکہ کے ویٹو اختیار کے استعمال کے بعد سامنے آیا ہے جس میں امریکی سفیر نے جمعے کو متحدہ عرب امارات کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی پیش کردہ قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔

امریکی سفیر رابرٹ اے ووڈ نے کہا کہ جنگ بندی کی قرارداد کے متن میں امریکہ کی تمام تجاویز کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور اس میں اسرائیل کے حقِ دفاع کو تسلیم نہیں کیا گیا۔

امریکہ بارہا اسرائیل پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ غزہ میں عام شہریوں کے جانی نقصان کے کم سے کم ہونے کو یقینی بنائے۔

تاہم حالیہ چند دنوں میں اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جاری جنگ میں شدت آئی ہے جس میں سیکڑوں عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

حماس کے زیر کنٹرول غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 17 ہزار سے زیادہ ہے جن میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے یو این چارٹر کی شق 99 کا استعمال کرتے ہوئے سلامتی کونسل پر زور دیا تھا کہ وہ غزہ جنگ سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر ایکشن لے۔

تاہم سلامتی کونسل کے جمعے کو ہونے والے اجلاس میں 15 میں سے 13 ارکان نے جنگ بندی کی قرارداد کی حمایت کی جب کہ برطانیہ ووٹنگ سے غیر حاضر رہا اور امریکہ نے ویٹو کا اختیار استعمال کیا۔

فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے جمعے کو ‘رائٹرز’ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے عالمی امن کانفرنس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور فلسیطنیوں کے درمیان تنازع خطرناک سطح تک پہنچ گیا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر امن کانفرنس بلائی جائے اور عالمی طاقتیں امن کی ضمانت دیں۔

محمود عباس نے کہا کہ غزہ میں جنگ ایک طرف، مغربی کنارے میں گزشتہ برس سے اسرائیلی فورسز ہر جگہ حملے کر رہی ہیں جب کہ یہودی آباد کار فلسطینی علاقوں میں تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ اسرائیل کی غزہ کی پٹی میں حماس کے خلاف جنگ جاری ہے وہیں اسرائیلی فورسز مغربی کنارے میں پناہ گزین کیمپوں میں بھی کارروائیاں کر رہی ہیں۔

حالیہ چند روز کے دوران مغربی کنارے میں اسرائیلی فورسز کی کارروائیوں میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ترکیہ کا سلامتی کونسل میں اصلاحات لانے پر

ادھر ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے ہفتے کو ایک بیان میں سلامتی کونسل میں اصلاحات لانے پر زور دیا ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ انصاف ہے کہ صرف امریکہ کی جانب سے ویٹو کرنے پر غزہ میں جنگ بندی سے متعلق اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مطالبہ مسترد کر دیا گیا ہے۔

‘رائٹرز’ کے مطابق صدر ایردوان نے استنبول میں انسانی حقوق سے متعلق ایک کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔

امریکہ کا موقف

امریکہ نے، جو اسرائیل کا سب سے قریبی اتحادی، یہ موقف اپنایا ہے کہ جنگ بندی کا وقت درست نہیں ہے۔

نائب امریکی سفیر رابرٹ ووڈ نے اس موقع پر کہا، “شاید غیر حقیقی طور پر، یہ قرارداد غیر مشروط جنگ بندی کے مطالبے کو برقرار رکھتی ہے۔”

انہوں نے مزید کہا “یہ نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ بلکہ خطرناک ہے: یہ حماس کو صرف اپنی جگہ پر چھوڑ دے گا، (یہ گروپ) دوبارہ منظم ہو سکے گا اور جو کچھ اس نے 7 اکتوبر کو کیا تھا اسے دہرایا جائے گا۔”

انہوں نے زور دیا کہ واشنگٹن ایک پائیدار امن کی بھرپور حمایت کرتا ہے جس میں اسرائیلی اور فلسطینی دونوں امن اور سلامتی کے ساتھ رہ سکیں، نہ کہ ایسی جنگ بندی جو کہ “صرف اگلی جنگ کے بیج بوئے۔”

خیال رہے کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ جنگ میں وقفے کو طویل کرنے کی حمایت کرے گی جیسا کہ نومبر میں سات دن کے توقف میں ہو ا جب حماس کے زیر حراست 100 سے زائد یرغمالیوں اور اسرائیلی جیلوں سے تقریباً 300 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی ممکن ہوئی۔

امریکہ نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ حماس کے خلاف اپنی کارروائیوں کے دوران غزہ میں عام شہریوں کی ہلاکت سے گریز کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں