افغان بےدخلی کیس: ملک میں کوئی جاسوس آکر بیٹھ جائے اور دو سال بعد کہے گرفتار نہ کرو تو کیا ہوگا؟ جسٹس طارق

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کی سپریم کورٹ نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی وطن واپسی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے معاملہ لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے کمیٹی کو بھجوا دیا ہے۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ کل اگر ایک جاسوس پاکستان میں گھس کر ایک سال تک بیٹھا رہے اور پکڑے جانے پر کہے کہ میرے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہو رہے ہیں، مجھے گرفتار نہ کرو تو آپ کیا کہیں گے؟

بدھ کو پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد، چیئرمین این ڈی ایم محسن داوڑ اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکنوں سمیت دیگر فریقین کی جانب سے غیر ملکی شہریوں کی وطن واپسی روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر سماعت ہوئی جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزاروں نے آرٹیکل 224 کے تحت نگراں حکومت کے اختیارات پر سوال اٹھایا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت آئین کی تشریح کے لیے معاملات لارجر بینچ میں جانے چاہییں۔

سپریم کورٹ نے مزید ریمارکس دیے کہ بےدخلی کیس میں آرٹیکل نو، 10، 24 سمیت بنیادی حقوق کی تشریح درکار ہے اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت آئینی تشریح کا معاملہ لارجر بینچ سن سکتا ہے لہٰذا کیس کو لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے ججز کمیٹی کو بھیجا جاتا ہے۔

دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت اور وزارت خارجہ نے اپنے جوابات جمع کرا دیے، درخواست گزاروں نے اپنی درخواستوں میں افغان باشندوں سے متعلق جو کہا حقیقت اس کے برعکس ہے۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ حکومت تو صرف ان لوگوں کو واپس بھیج رہی ہے جو غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔

وکیل درخواست گزار سمیع الدین نے کہا کہ بےدخلی کے لیے قانونی دستاویزات نا بھی ہوں تب بھی بنیادی حقوق کو مدنظر رکھنا لازم ہے، جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ غیرملکیوں کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں تب بھی ان کو انسانی حقوق کے تحت ملک میں رہنے دیا جائے؟

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ غیر قانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کے ساتھ قانون اور آئین پاکستان کے مطابق سلوک ہونا چاہیے، جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ پاکستان کے قانون کے مطابق تو غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو پہلے جیل ہونی چاہیے۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ کیا یہ چاہتے ہیں کہ ان غیرملکیوں کو پہلے جیل ہو پھر بے دخل کیا جائے؟ حکومت کے مطابق 90 فیصد غیر قانونی مقیم غیر ملکی رضاکارانہ طور پر واپس جا رہے ہیں، کل اگر ایک جاسوس پاکستان میں گھس کر ایک سال تک بیٹھا رہے اور پکڑے جانے پر کہے کہ میرے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہو رہے ہیں مجھے گرفتار نہ کرو تو آپ کیا کہیں گے؟

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس آئینی تشریح کا ہے اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے بعد لارجر بنچ کو سننا چاہیے، درخواست گزاروں نے نگران حکومت اور اپیکس کمیٹی کے اختیار کو چیلنج کیا ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا حکومت بھی یہی سمجھتی ہے کہ یہ کیس لارجر بنچ کی تشکیل کے لیے واپس کمیٹی کو جانا چاہیے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت سمجھتی ہے کہ اس کیس کو لارجر بنچ کی تشکیل کے لیے کمیٹی کو بھجوایا جائے۔

درخواست گزار کے وکیل عمر گیلانی نے استدعا کی کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ افغان شہریوں کی واپسی ہو رہی ہے تو کیس کو جلد سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت سردیوں کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ افغان مہاجرین اور سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کرنے والے افراد کی بے دخلی کے خلاف رواں برس یکم نومبر کو کئی سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے نگران حکومت کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔

خیال رہے کہ رواں برس اکتوبر میں نگران وفاقی حکومت نے ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم 11 لاکھ غیرملکیوں کے انخلا کا فیصلہ کیا تھا جو دہشت گردوں کو فنڈز اور سہولیات سمیت دیگر غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

اس حوالے سے کہا گیا تھا کہ پہلے مرحلے میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد، دوسرے مرحلے میں افغانستان کی شہریت رکھنے والے اور تیسرے مرحلے میں جن کے پاس رہائشی کارڈ ہیں، انھیں بے دخل کر دیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں