بھارت: ایودھیا میں رام مندر اور 6 ارب ڈالرز کے ترقیاتی منصوبے، مسلم کمیونٹی کو کیا تحفظات ہیں؟

نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کے شہر ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر سمیت چھ ارب ڈالرز کے ترقیاتی منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے۔ حکام پراُمید ہیں کہ آئندہ ماہ مندر کا باقاعدہ افتتاح کر دیا جائے گا جس کے بعد شہر میں ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو گا۔

دوسری جانب شہر میں مسلم کمیونٹی کے افراد اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق شہر کی انتظامیہ کو توقع ہے کہ گلابی پتھر اور سفید سنگ مرمر سے تعمیر کردہ رام مندر کے 22 جنوری کو افتتاح کے بعد ماہانہ لگ بھگ 45 لاکھ سیاح شہر کا رُخ کریں گے جو کہ ایودھیا کی 30 لاکھ کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے۔

ایودھیا شہر 1992 میں بین الاقوامی سرخیوں میں آیا تھا جب شدت پسند ہندوؤں کے ہجوم نے بابری مسجد کو مسمار کر دیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ بابری مسجد کو ہندو مندر کی جگہ پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اب اسی مقام پر رام مندر کی تعمیر آخری مراحل میں ہے۔

ہندو مسلم فرقہ وارانہ کشیدگی کے نتیجے میں دو ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

ہندوؤں کا یہ ماننا ہے کہ مغل بادشاہ بابر کے دور میں تعمیر ہونے والی بابری مسجد کی جگہ پہلے رام مندر اور ہندو دیوتا رام کی جنم بھومی تھی۔

یہ معاملہ کئی دہائیوں تک ہندو، مسلم کشیدگی کا باعث بنتا رہا ہے۔ بھارت کی سپریم کورٹ نے 2019 میں اس مقام کو مندر کی تعمیر کے لیے ہندو گروپ کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ مسلمانوں کو شہر میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے متبادل زمین فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

مندر کی تعمیر اور شہر میں ترقیاتی منصوبے

رام مندر کی تعمیر پر 18 کروڑ ڈالر خرچ آئے گا جس کے لیے عطیات جمع کیے گئے ہیں۔ دوسری جانب ریاست میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جی پی) نے شہر میں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔

شہر میں ایک نیا بین الاقوامی ایئر پورٹ، پارکس، سڑکیں اور پُل بھی تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

ہندو پنڈت راجندر داس کا کہنا ہے کہ مندر اور شہر میں دیگر ترقیاتی منصوبوں سے شہر میں زمین کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جب کہ سیاحت کو بھی فروغ ملا ہے۔

چونسٹھ سالہ راجندر داس کا مزید کہنا تھا کہ مندر کی تعمیر سے ہر کوئی مستفید ہو گا اور وہ سیاحوں کے لیے لاجز کی دوبارہ تعمیر کے لیے ایک لاکھ 20 ہزار ڈالر خرچ کر رہے ہیں جس میں پہلے سے بہتر سہولیات موجود ہوں گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مندر میں دنیا کے ہر کونے سے سیاح آئیں گے۔

مسلمانوں کے تحفظات

رائٹرز نے اس سلسلے میں درجنوں رہائشیوں اور کاروباری افراد کے انٹرویوز کیے جن کا کہنا تھا کہ مندر کی تعمیر سے نئی سرمایہ آئے گی تاہم کچھ افراد مندر کی تعمیر پر تحفظات کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔

مقامی افراد جن کی پراپرٹی مندر کی تعمیر کے دوران منہدم کی گئیں، پراپرٹی کی بڑھتی قیمتوں اور ناکافی معاوضے کے سبب بے گھر محسوس کر رہے ہیں۔

مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم سنی سینٹرل وقف بورڈ کے مقامی رہنما اعظم قادری کہتے ہیں کہ منصوبے سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر مسجد کے لیے جو زمین فراہم کی گئی ہے وہ شہر کے مرکز سے 15 میل دُور ہے۔

اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ شہر میں ہونے والی تعمیر و ترقی سے مسلم کمیونٹی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

بی جے پی کے ترجمان راکیش ترپاٹھی نے مسلم آبادی کے تحفظات کے بارے میں کہا کہ اگر سڑکیں کھلی ہوں گی تو مسلمان بھی اسے استعمال کریں گے اور اگر بجلی کی ترسیل میں رکاوٹیں ختم ہوں گی تو اس سے مسلم آبادی بھی مستفید ہو گی۔

خیال رہے کہ رام مندر کا افتتاح اگلے سال ہونے والے عام انتخابات سے قبل ہو رہا ہے جس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے۔

افتتاح کی تیاریاں

یوگی آدتیہ ناتھ کی ریاستی حکومت نے رام مندر کے افتتاح کے موقع پر ملک بھر سے 6000 سرکردہ شخصیات کو مدعو کیا ہے۔ ریاست کے وزیر سیاحت جے ویر سنگھ کا کہنا ہے کہ مندر کے افتتاح کا جشن عظیم الشان انداز میں منایا جائے گا۔

ان کے مطابق اس سے انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ پہنچے گا اور اس کے ’ہندو فرسٹ‘ یا پہلے ہندو کے ایجنڈے کو تقویت حاصل ہوگی۔

حکومت نے اس روز پوری ریاست میں تعطیل کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ تمام مندروں میں ہندوؤں کی ایک مذہبی کتاب ’ہنومان چالیسہ‘ کا پاٹھ کیا جائے گا۔

مبصرین کے مطابق اتر پردیش بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ قومی سیاست میں اس کا اہم مقام ہے۔ جو پارٹی اس ریاست میں کامیاب ہوتی ہے وہی مرکز میں بھی حکومت بناتی ہے۔ ریاست میں کل 80 پارلیمانی حلقے ہیں۔ بی جے پی نے 2019 میں ان میں سے 62 حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔

کیا بی جے پی اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے؟

ایک ہندو مہنت راجندر داس کا کہنا ہے کہ اس سے سیاحت کو فروغ ہو گا، ملک کے کونے کونے سے لوگوں کی آمد ہوگی اور غیر ملکی سیاح بھی آئیں گے۔ ان کے بقول ایودھیا کی تعمیر نو سے سب کو فائدہ پہنچے گا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بی جے پی 2024 میں 2019 سے بھی زیادہ سیٹیں جیتنا چاہے گی تاکہ تیسری بار بھی دلی تک پہنچنے کا راستہ اس کے لیے آسان ہو جائے۔ یاد رہے کہ ریاست کی مجموعی آبادی تقریباً 24 کروڑ ہے جس میں مسلمان تقریباً 20 فی صد ہیں۔

سینئر تجزیہ کار اروند کمار سنگھ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ رام مندر کا معاملہ بی جے پی کے ایجنڈے میں 1991 سے سرِفہرست رہا ہے۔ اس سے اس نے کافی سیاسی فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ ایک بار پھر اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔

ان کے مطابق بی جے پی اپنے مذہبی ایشوز میں قوم پرستی اور ملک کی ترقی کا ایشو بھی جوڑ دیتی ہے جس سے وہ ایک بڑے حلقے کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بی جے پی نے ترقی کے ایشو کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دے دیا ہے۔

بی جے پی کے ایک رہنما آلوک وتس کا کہنا ہے کہ رام مندر کا معاملہ پورے ملک کا معاملہ ہے۔ رام سب کے لیے قابلِ احترام ہیں۔ اس لیے اگر ان کا مندر تعمیر ہوا ہے تو یہ پورے ملک کے لیے فخر کی بات ہے۔

ان کے مطابق عوام مودی حکومت کے کاموں پر بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ بی جے پی تیسری بار مرکز میں حکومت بنائے گی۔

سینئر تجزیہ کا رانجم نعیم کہتے ہیں کہ اترپردیش میں رام مندر کے علاوہ وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ کے سروے کا بھی معاملہ ہے۔ جب کہ ریاست کے مدرسوں کے غیر ملکی چندے کی جانچ ہو رہی ہے۔ یہ تمام ایشوز بی جے پی کے حق میں ماحول سازی کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں ریاستی انتخابات کے نتائج اور عام ہندوؤں کے بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نریندر مودی کو اب بھی مقبولیت حاصل ہے۔ لہٰذا اگر کوئی بہت بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوتی تو ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی پھر برسراقتدار آئے گی۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یو پی میں ایک ریاستی جماعت اکھلیش یادو کی ’سماجوادی پارٹی‘ کی پوزیشن مضبوط ہے اور مسلمانوں کے علاوہ یادو اور دیگر پسماندہ برادریوں کے ووٹ بھی اسے مل سکتے ہیں۔ اس صورت حال میں بی جے پی پچھلا نتیجہ شاید ہی دوہرا پائے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ الگ الگ ریاستوں میں بی جے پی کا مقابلہ الگ الگ پارٹیوں سے ہے اور کوئی ضروری نہیں کہ وہ ان کو شکت ہی دے سکے۔ البتہ ہندی بولی جانے والی ریاستوں میں بی جے پی کی ہی پوزیشن مضبوط نظر آرہی ہے۔

اروند کمار کا مزید کہنا ہے کہ بی جے پی اپوزیشن اتحاد سے خائف ہے اسی لیے وہ جذباتی ایشوز کا ایک کاک ٹیل بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کے مطابق ابھی جن تین ریاستوں میں بی جے پی کامیاب ہوئی ہے ان میں کانگریس نے اس سے 10 لاکھ زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں البتہ وہ ان ووٹوں کو سیٹوں میں تبدیل نہیں کر سکی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں