خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی صورتحال کے پیشِ نظر انسدادِ پولیو مہم ملتوی

پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور ملحقہ علاقوں میں دہشت گردی اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیشِ نظر پیر کو انسدادِ پولیو مہم روک دی گئی۔

یہ مہم ایسے وقت میں روکی گئی ہے کہ جب عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کے لیے کوشاں گلوبل پولیو ایریڈیکیشن انیشیٹو (جی پی ای آئی) نے پاکستان کے معاشی عدم استحکام اور بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کو پولیو کے خاتمے کی کوششوں کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔

ملک بھر میں پولیو سے متاثرہ پانچ بچوں میں سے چار کا تعلق خیبر پختونخوا کے جنوبی انتظامی ڈویژن بنوں سے ہے۔

وفاقی محکمۂ صحت اور عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی پاکستان کے 14 اضلاع جن میں سے اکثریت کا تعلق خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے ہے میں پولیو جراثیم کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔

خیبر پختونخوا کے محکمۂ صحت کے اسپیشل سیکریٹری عبدالباسط نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ متعلقہ اداروں کی باہمی مشاورت کے بعد اس وقت ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں انسدادِ پولیو مہم روک دی گئی ہے تاہم مہم لکی مروت میں جاری رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی (سیکیورٹی) صورتِ حال معمول پر آ جائے گی تو پولیو مہم دوبارہ شروع کر دی جائے گی۔

انسداد پولیو مہم میں شامل ایک اہل کار نے بتایا کہ آئندہ سال کے لیے انسدادِ پولیو کی پہلی مہم آٹھ جنوری سے شروع کی جائے گی اگر سیکیورٹی صورتِ حال اطمینان بخش ہوئی تو پھر ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک اس مہم میں ترجیحی بنیادوں پر شامل ہوں گے۔

ملک بھر کے دیگر علاقوں کی طرح خیبر پختونخوا میں رواں سال کے دوران انسدادِ پولیو مہم 27 نومبر سے دسمبر کے آخری ہفتے تک جاری ہے۔

خیبر پختونخوا کے انسدادِ پولیو کے ہنگامی دفتر کے مطابق اس مہم کے دوران خیبر پختونخوا میں مجموعی طور پر 74 لاکھ سے زائد پانچ سال تک کے عمر کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جا رہے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے چند ماہ سے خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع بالخصوص جنوبی اضلاع میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

دوسری طرف پولیس نے ڈیرہ اسماعیل خان اور لکی مروت کے سرحد پر واقع ایک پولیس چوکی پر اتوار کی رات دہشت گردوں کے ایک حملے کو پسپا کیا تھا۔

جمعرات اور جمعے کے درمیانی شب دو مبینہ خودکش حملہ آوروں سمیت پانچ دہشت گردوں نے ٹانک کی پولیس لائنز پر حملہ کردیا تھا۔

پولیس لائنز کے اندر پولیس اہلکاروں اور مبینہ دہشت گردوں کے درمیان تصادم لگ بھگ 13 گھنٹے تک جاری رہا تھا۔ اس حملے میں تمام پانچ حملہ آور جوابی کارروائی میں ہلاک کر دیے گئے تھے، دہشت گردوں کے حملے میں تین پولیس اہل کار بھی ہلاک ہو گئے تھے۔

گزشتہ ہفتے 12 دسمبر کی صبح عسکریت پسندوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل درابن میں سیکیورٹی فورسز کے ایک کیمپ پر حملہ کرکے 23 اہلکاروں کو ہلاک اور 34 کو زخمی کر دیا تھا۔

اسی روز ڈیرہ اسماعیل خان ہی کی ایک اور تحصیل کلاچی میں سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ میں دو پولیس اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوئے تھے۔

پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی چوکیوں، کیمپوں اور اہل کاروں کے علاوہ انسدادِ پولیو مہم میں شامل محکمۂ صحت اور سیکیورٹی اہل کاروں پر مبینہ عسکریت پسند حملے ہوتے رہتے ہیں۔

انسدادِ پولیو خیبر پختونخوا کے ہنگامی دفتر کے ایک عہدیدار نے نام نہ بتانے کی درخواست پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ رواں سال پولیو ٹیموں کی سیکیورٹی پر مامور افراد پر 22 حملے ہو چکے ہیں۔ ان حملوں میں سے 14 خیبرپختونخوا میں ہوئے جس کے نتیجے میں تین اہل کار اور 22 زخمی ہوئے۔

وفاقی سطح پر انسدادِ پولیو کے دفتر کے ترجمان ذوالفقار باباخیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انسدادِ پولیو مہم کے ان علاقوں میں ترجیحی بنیادوں پر چلانے پر توجہ دی جا رہی ہے، جہاں ضرورت ہوتی ہے۔

ان کے بقول رواں سال پولیو سے متاثرہ چھ مریضوں میں سے چار کا تعلق خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع سے ہے اور ان اضلاع میں سیکیورٹی کی صورتِ حال بہت مخدوش ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسدادِ پولیو مہم میں متعدد بین الاقوامی ادارے بھی شامل ہوتے ہیں۔

پشاور کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار عرفان خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات انسدادِ پولیو مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری دستاویزات کے مطابق خیبرپختونخوا میں رواں سال دہشت گردی میں 470 سیکیورٹی اہل کار اور شہری ہلاک ہوئے ہیں جن میں پشاور میں سب سے زیادہ 106 سیکیورٹی اہل کار جان کی بازی ہار گئے۔

خیبر میں 28، باجوڑ میں چار، شمالی وزیرستان میں 36، جنوبی وزیرستان میں 29، ڈی آئی خان میں 21 اور ٹانک میں 13 اہلکار ہلاک ہوئے۔ ان کے بقول اگر دیکھا جائے تو پشاور کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں سب سے زیادہ سیکیورٹی اہل کار جنوبی اضلاع میں نشانہ بنائے جا چکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں