آرمی چیف کا دورۂ امریکہ؛ مقاصد کیا ہیں؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے)پاکستان فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے اپنے جاری دورۂ امریکہ میں اعلیٰ سیاسی اور فوجی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان اہم ملاقاتوں کو دیکھتے ہوئے بعض مبصرین آرمی چیف کے دورے کو اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔

یہ دورہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں تناؤ پایا جاتا ہے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف اقدامات میں جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) پینٹاگان سے عسکری تعاون چاہتا ہے۔

گزشتہ ہفتے واشنگٹن پہنچنے کے بعد آرمی چیف نے اہم امریکی حکومتی عہدے داروں اور فوجی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں جن میں امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن، سیکریٹری دفاع لائیڈ جے آسٹن، نائب وزیرِ خارجہ وکٹوریہ نولینڈ، نائب مشیر قومی سلامتی جوناتھن فائنر اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل چارلس کیو براؤن شامل ہیں۔

اس کے علاوہ پیر کو انہوں نے فلوریڈا میں سینٹ کام مرکزی کمان کے دفتر کے دورے کے موقع پر کمانڈر جنرل مائیکل ایرک سے ملاقات کی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی نہیں پائی جاتی ہے لیکن عاصم منیر کا دورۂ امریکہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پینٹاگان اور جی ایچ کیو کے تعلقات میں بہتری آرہی ہے۔

واضح رہے کہ نومبر 2022 میں آرمی چیف تعینات ہونے بعد جنرل عاصم منیر کا یہ پہلا دورۂ امریکہ ہے۔

واشنگٹن میں مقیم پاکستانی صحافی انور اقبال کہتے ہیں کہ امریکہ کی پاکستانی خطے میں جن امور میں دلچسپی ہے، چاہے وہ افغانستان میں دہشت گردی ہو، چین ہو یا ایران، اس میں حکومت نہیں بلکہ فوج ہی کردار ادا کرسکتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بنا پر امریکہ پاکستان میں حکومت کے بجائے فوج سے شراکت داری چاہتا ہے جو انہیں ان امور میں نتائج دے سکے۔

تجزیہ کار احمد رشید کہتے ہیں کہ ایک بات ظاہر ہے کہ امریکہ کی پاکستان کی حکومت اور عوام سے تعلقات میں بہتری آرہی ہو یا نہیں لیکن فوج سے تعلقات بڑھ رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج اور امریکی محکمۂ دفاع کے درمیانا مور اور تعاون ہمیشہ چلتا رہا ہے اور حکومتی سطح پر تعلقات میں اتار چڑھاؤ نے دفاعی تعلقات کو زیادہ متاثر نہیں کیا ہے۔

ان کے بقول موجودہ حالات میں امریکہ کی یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ کے معاملات میں دلچسپی ہونے کی وجہ سے پاکستان اور ہمارے خطے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس بنا پر کسی بڑے فوجی تعاون یا تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی کی توقع نہیں ہے۔

دفاعی تعاون کی بحالی کے امکانات محدود

دفاعی تعاون کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انور اقبال نے کہا کہ خطے میں اس وقت ایسی کوئی صورتِ حال نہیں ہے کہ امریکہ پاکستان کی فوجی امداد بحال کرے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ اگر پاکستان کی فوجی امداد بحال کرتا ہے تو اس سے واشنگٹن کے نئی دہلی سے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں اور امریکہ چین کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے بھارت پر انحصار کیے ہوئے ہے۔

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف عاصم منیر کے دورے کا بنیادی مقصد بھی فوجی امداد کی بحالی نہیں ہے۔

تجزیہ کار احمد رشید کے مطابق پاکستان اور امریکہ میں تعاون کو بڑھانے کے زمینی مواقع اور مشترکہ مفادات بہت محدود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان عالمی مالیاتی اداروں میں امریکہ کی مدد چاہتا ہے اور امریکہ افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے سہولت مانگتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان پناہ گزینوں کا وزن کم کرنا چاہتا ہے اور امریکہ اس حوالے سے ضرور مدد کرے گا۔

‘امریکہ پاکستان میں ہائبرڈ نظام چاہتا ہے’

جنرل عاصم منیر کا دورہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب ایک طرف پاکستان کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے تو دوسری جانب پاکستان کو معاشی اور سیکیورٹی چیلنجز درپیش ہیں۔

انور اقبال کے بقول امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں فوج مستحکم رہے گی تو ہی ملک مستحکم رہ سکے گا اور سیاسی انارکی کا کوئی بھی عمل بالآخر امریکہ مخالف رنگ اختیار کرے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس بنا پر امریکہ پاکستان میں ہائبرڈ نظام کی حمایت کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں کسی حد تک تاخیر پر امریکہ کو اعتراض نہیں لیکن اگر یہ تاخیر طوالت اختیار کرتی ہے تو تشویش پیدا ہوگی۔

انور اقبال نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کے خاتمے میں امریکہ کے کردار کے الزامات نے واشنگٹن کو پریشان کیا ہے اور امریکہ عمران خان کے حوالے سے کوئی دباؤ نہیں ڈال رہا ہے۔

احمد رشید کے خیال میں پاکستان اس وقت کمزور سطح پر ہے اور عام انتخابات کے بعد ہی واشنگٹن اسلام آباد سے تعلقات کے حوالے سے غور کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ فوج بھی یہ چاہے گی کہ جو بھی نیا وزیرِ اعظم آئے وہ امریکہ سے تعلقات کو بہتر کرنے میں کردار ادا کرے۔

‘افغانستان کے خلاف امریکہ اعلانیہ تعاون نہیں کرے گا’

پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں ماضی میں ایک اسٹرٹیجک قربت بھی رہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسے ادوار بھی آئے جب باہمی تعلقات تناؤ کا شکار رہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود پاکستان اور امریکہ کی فوجی قیادت کے درمیان نہایت فعال قریبی تعلقات رہے ہیں۔

انور اقبال کہتے ہیں کہ امریکی محکمۂ خارجہ یہ کہہ چکا ہے کہ پاکستان اور افغانستان ٹی ٹی پی اور سرحدی مسائل کو سفارتی سطح پر حل کریں۔

ان کے بقول پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ ڈرون فراہم کرے تاکہ وہ افغانستان کے اندر کالعدم ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر حملے کرسکیں۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ اگر امریکہ نے پاکستان سے تعاون کیا تو یہ اعلانیہ نہیں بلکہ خاموشی سے ہوگا۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کو یہ خدشہ ضرور ہے کہ ٹی ٹی پی جیسے چھوٹے گروپس تہنا زیادہ عرصہ کام نہیں کرسکتے ہیں اور القاعدہ و داعش جیسی تنظیموں سے مل جاتے ہیں۔

انور اقبال نے کہا کہ امریکہ کو جب تک یہ محسوس نہیں ہوگا کہ یہ گروپس ان کے لیے خطرہ ہیں وہ مکمل طور پر پاکستان کی مدد نہیں کریں گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان ڈرون کے حصول پر اصرار کرے گا تو امریکہ ڈرون دے دے گا لیکن کبھی بھی پاکستان کو یہ تجویز نہیں دے گا کہ افغانستان کے ساتھ جنگ کی صورت میں جائے۔

انور اقبال کے بقول امریکہ پاکستان کو ایسا کوئی اسلحہ نہیں دے گا جس سے اس کی بھارت پر برتری ظاہر ہو۔

تجزیہ کار احمد رشید سمجھتے ہیں کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستان کو اپنا نشانہ بنایا ہوا ہے اور پاکستان کی فوج چاہتی ہے کہ امریکہ اس ضمن میں مدد کرے۔

ان کے بقول امریکہ پاک-افغان سرحد اور سابق قبائلی اضلاع میں دلچسپی نہیں رکھتا اور وہ ایسی کسی بھی جنگ سے دور رہنا چاہے گا۔

احمد رشید کا کہنا تھا کہ جب تک امریکہ کو یہ خطرہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ گروپ بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کی کارروائیاں کرسکتا ہے وہ کم سے کم مدد کرے گا۔

البتہ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کی فوج کو تربیت اور اسلحہ کی فراہمی تک مدد دے گا اور کہے گا کہ اسلام آباد اس مسئلے سے خود ہی نمٹے۔

‘امریکہ بعض افغان مہاجرین کیلئے سہولت چاہتا ہے’

احمد رشید کہتے ہیں کہ آرمی چیف عاصم منیر اور امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کی ملاقات کا بنیادی نکتہ افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل تھا۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کو اس بات پر خاصی تنقید کا سامنا ہے کہ وہ افغان جنہوں نے نیٹو فوج کے ساتھ کام کیا انہیں اور ان کے خاندانوں کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑا جارہا ہے۔

ان کے بقول امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان ایسے افغان جنہوں نے امریکہ کے لیے کام کیا ہے ان کے خاندانوں اور دیگر افغانوں سے برتاؤ میں فرق کرے۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکہ نے ان ہزاروں افغان خاندانوں سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ انہیں امریکہ لے جائیں گے لیکن یہ خاندان ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان نے اکتوبر میں اعلان کیا تھا کہ یکم نومبر سے غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو اُن کے آبائی ملکوں میں بھیج دیا جائے گا جس کے بعد سے اب تک چار لاکھ سے زائد افغان باشندوں کو واپس بھجوایا جا چکا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور امریکہ کی طرف سے پاکستان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اُن غیر ملکی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کی پالیسی پر نظرِ ثانی کرے جن کی جانوں کو افغانستان واپسی پر خطرہ ہو سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں