حوثیوں پر حملے کیلئے مغرب کو کن عسکری و جغرافیائی سیاسی خطرات کا سامنا ہے؟

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے جمعے کو یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر فضائی اور بحری حملوں کا سلسلہ شروع کرنے کے بعد مشرق وسطیٰ کی صورتحال ہائی الرٹ پر ہے۔

دو مغربی اتحادیوں کے حملے حوثیوں کی جانب سے بحیرۂ احمر میں تجارتی بحری جہازوں کے خلاف میزائل اور ڈرون حملوں کے جواب میں کیے گئے ہیں۔

حوثیوں نے امریکہ اور برطانیہ کے حملوں کی مذمت کی اور اس کا جواب دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے جس سے خطے میں وسیع تر تصادم کا خدشہ ہے۔

حوثی فوج کے ترجمان یحییٰ ساری نے ایک ٹیلی ویژن خطاب میں کہا کہ یہ ایک واضح جارحیت ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حملے کا ’جواب دیا جائے گا اور حساب لیا جائے گا۔‘

ایران نے بھی یمن پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انھیں ’یمن کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی‘ قرار دیا۔

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے بھی اتحادیوں پر الزام لگایا کہ وہ بحیرۂ احمر کو ’خون کے سمندر‘ میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حوثیوں جو شمالی یمن پر کنٹرول رکھتے ہیں اور انھیں ایران کی حمایت حاصل ہے، نے نومبر میں بحیرۂ احمر میں اسرائیل اور اہم بحری تجارتی گزرگاہوں پر حملوں کی مہم شروع کی تھی جس نے بین الاقوامی تجارت کو شدید متاثر کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ کارروائیاں غزہ میں اسرائیلی فوج کے خلاف جنگ میں فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی حمایت میں کر رہے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے ممالک جن میں سے کئی مغربی اتحادی ہیں خطے میں امن و امان کی بگڑتی اس تمام صورتحال کو تشویش کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ بہت سے لوگ حیران ہیں کہ کیا یمن کے خلاف امریکہ اور برطانیہ کی فوجی کارروائی واقعی حوثیوں کو بحیرۂ احمر میں اپنے حملے جاری رکھنے سے روک سکے گی۔

اور اگر ایسے میں حوثی، جو سعودی عرب کی طاقتور فضائیہ کے خلاف کئی سال تک مسلح تصادم میں بچنے میں کامیاب رہے ہیں، ان حملوں کا جواب دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو مغربی اتحادیوں کو اس گروہ سے کیا خطرات لاحق ہیں؟

اسلحہ و گولہ بارود کا ذخیرہ

جب حوثیوں نے نومبر میں اپنے حملے شروع کیے تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اس گروہ کو کئی دھمکیاں دیں کہ اگر انھوں نے بحیرہ احمر اور نہر سویز میں تجارتی بحری جہازوں پر حملہ کرنا بند نہ کیا تو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تاہم یہ حملے جاری رہے اور دنیا بھر کی شپنگ کمپنیاں جو اس تجارتی روٹ کا استعمال کرتی ہیں کو سینکڑوں جہازوں کو افریقہ کے گرد موڑنا پڑا، جس سے اخراجات اور بحری سفر کے وقت دونوں میں اضافہ ہوا۔

جیسا کہ بی بی سی کے سکیورٹی نامہ نگار فرینک گارڈنر بتاتے ہیں کہ حوثیوں کی جاری مہم سے دو چیزیں سامنے آئی ہیں۔

پہلی یہ کہ حوثی جو یمن میں بحیرہ احمر کے ساحل پر قابض ہیں ’بین الاقوامی دباؤ کے سامنے پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں۔‘ اور دوسری یہ کہ ان کے پاس واضح طور پر میزائلوں اور ڈرونز کا ایک طاقتور ہتھیار ہے اور وہ انھیں مغربی جنگی جہازوں کے خلاف لانچ کرنے سے نہیں ڈرتے۔

لندن میں قائم تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ (رسی) کی 10 جنوری کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں حوثیوں کے پاس موجود کچھ جدید ترین ہتھیاروں کی تفصیلات دی گئی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان کے پاس ہتھیاروں میں 400 کلومیٹر فاصلے تک مار کرنے والے جہاز شکن بیلسٹک میزائل آصیف شامل ہیں، جو 500 کلوگرام وار ہیڈ لے جا سکتے ہیں اور اپنے اہداف کا پتہ لگانے کے لیے الیکٹرو آپٹیکل سیکر کا استعمال کرتے ہیں۔

ان کے پاس آلمندب 2 بھی ہے جو 2006 میں حزب اللہ کی طرف سے اسرائیلی جہاز ہنیت پر فائر کیے گئے میزائل سے ملتا جلتا ایک اینٹی شپ کروز میزائل ہے۔

رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حوثیوں کو سمندری نقل و حرکت کے بارے میں اطلاعات سمندری نگرانی کرنے والے ایرانی جہاز ایم وی بہشاد سے موصول ہوتی ہیں، جو بحیرہ احمر میں آبنائے باب المندب کے قریب آپریٹ کرتا ہے۔ یہ آبی گزرگاہ بحیرۂ احمر میں ہونے والی عالمی تجارت کا 15 فیصد بنتا ہے۔

ایران کی حمایت

یمن میں 2014 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد سے حوثی اب ملک کی زیادہ تر آبادی والے شمال پر قابض ہیں جس میں حدیدہ کی بندرگاہ بھی شامل ہے۔ حوثیوں نے یہی سے بحیرۂ احمر میں کچھ بحری جہازوں کو حراست میں لیا ہے۔

گذشتہ سال یمن کے دارالحکومت صنعا میں ایک فوجی پریڈ میں حوثیوں نے اپنے کچھ فوجی ساز و سامان کی نمائش کی جس میں ایک لڑاکا طیارہ، ڈرونز، میزائل، گاڑیاں، بحری جہاز اور اینٹی شپ بارودی سرنگیں شامل تھیں۔

پریڈ کے دوران بینرز آویزاں کیے گئے تھے جن پر ’ امریکہ مردہ باد، اسرائیل مردہ باد‘ لکھا تھا۔

امریکہ اور خلیجی ریاستیں طویل عرصے سے ایران پر حوثیوں کو میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ تربیت فراہم کرنے کا الزام لگاتی رہی ہیں۔

حوثیوں نے دو ماہ سے زائد عرصے سے بحیرہ احمر میں جہازوں پر اپنے 20 سے زیادہ حملوں سے دنیا کے سامنے اپنی فلسطین کے لیے حمایت کے علاوہ مغرب کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ بھی کیا۔

اور جیسا کہ ماہرین کہتے ہیں کہ انھوں نے خود کو ناصرف علاقائی منظر نامے پر بلکہ بین الاقوامی منظر نامے پر بھی پیش کیا ہے۔

لندن میں چیٹم ہاؤس تھنک ٹینک کے یمنی ماہر فاریہ المسلمی نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ ’حوثی بہت اچھے فوجی کاروباری ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’حوثی واقعی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انھیں فلسطین کا دفاع کرنے اور اسرائیل کی مخالفت کرنے اور یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ دوسرے عرب ممالک ( ایسا نہ کرنے پر) کتنے منافق ہیں کا صحیح موقع ملا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’جیسے جیسے غزہ میں جنگ جاری رہے گی، حوثی بحیرہ احمر میں (اپنی کارروائیاں) تیز کر دیں گے۔‘

فلسطینی عنصر

درحقیقت بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملوں نے فلسطین کے مسئلے اور حماس کے لیے اس کی حمایت کو بین الاقوامی سطح پر عیاں کر دیا ہے۔ اس موقف کو ان کی اپنی آبادی اور تقریباً پورے مشرق وسطیٰ میں بہت پذیرائی ملی ہے۔ جہاں یہ عام تاثر پاتا جاتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی غزہ تنازع کا حصہ اور وہ اسرائیل کے جنگی جنون کو ہوا دے رہے ہیں اور جنگ بندی کے مطالبات کو روک رہے ہیں۔

عرب ممالک میں بہت سے لوگوں نے غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روکنے میں اپنی حکومتوں کی ناکامی پر بھی تنقید کی ہے۔ غزہ میں اب تک ہلاکتوں کی تعداد 22,000 سے تجاوز کر چکی ہے۔

جیسا کہ فرینک گارڈنر بتاتے ہیں کہ ان میں سے بہت سی عرب حکومتیں حوثیوں اور ان کے ایرانی اتحادیوں کو ناپسند کرتی ہیں لیکن ’وہ باغیوں کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی میں شامل ہو کر خانہ جنگی کا خطرہ مول نہیں لے سکتیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’وہ اب ایک مشکل پوزیشن میں ہیں کیونکہ حماس کے لیے حوثیوں کی حمایت اور ان کی اسرائیل کی کھلی مخالفت عرب آبادی میں مقبول ہو رہی ہے۔‘

سعودی عرب کی خاموشی

عرب خطے کا ایک بڑا ملک جو خاموش ہے وہ سعودی عرب ہے۔ سعودیوں نے 2015 میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف ایک خونی جنگ شروع کی تھی اور اس امید پر کہ وہ اپنے فضائی حملوں سے انھیں زیر کر لیں گے اور ملک پر اپنا قبضہ واپس لے لیں گے۔

سعودی مداخلت کارگر ثابت نہیں ہوئی اور تب سے اب تک یمن میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

مزید یہ کہ حوثیوں نے نہ صرف سعودی عرب کے حملوں کی مزاحمت کی بلکہ انھوں نے سعودی ہوائی اڈوں، شہروں اور تیل کی تنصیبات پر اپنے میزائل اور ڈرون حملوں سے بھی جواب دیا۔

سعودی عرب کے خلاف حوثیوں کی مزاحمت نے ممکنہ طور پر انھیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی دھمکیوں سے انکار کرنے اور بحیرہ احمر میں اپنے حملے جاری رکھنے کی ترغیب دی ہے۔

اگر ان کے حملے اب بھی جاری رہتے ہیں تو اسرائیل اور حماس کی جنگ کو ان سرحدوں سے آگے بڑھانے اور ایران کے ساتھ تنازعے کا خطرہ ہے جس سے بہت سے لوگ بچنا چاہتے ہیں۔

جیسا کہ بی بی سی کے بین الاقوامی نامہ نگار نوال المغافی بتاتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو امید ہے کہ جمعے کو ہونے والے ان کے حملے حوثیوں کے لیے رکاوٹ ثابت ہوں گے، لیکن ان حملوں سے حوثیوں سے لاحق خطرے کو ختم کرنے کا امکان نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’عسکری طور پر حوثیوں کو بار بار کمتر سمجھا جاتا رہا ہے۔ جن مقامات پر (جمعہ کو) حملہ کیا گیا وہ ان کی عسکری صلاحیتوں، خاص طور پر ان کے سمندری ہتھیاروں کے لحاظ سے ناکافی ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’یمن میں حوثیوں کے خلاف گذشتہ نو سالوں میں جاری جنگ سے اگر کچھ حاصل ہوا ہے تو وہ ایران کے ساتھ ان کے تعلقات مضبوط کرنا ہے۔ اور ایرانی حمایت کے ساتھ وہ اس سے کہیں زیادہ سٹریٹجک اور بہتر لیس دکھائی دیتے ہیں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں