حماس کا اسرائیل پر حملہ: غزہ کی جنگ کے 100 دن

غزہ + برلن (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے) جہاں ایک طرف حماس کی قید میں موجود یرغمالیوں کے اہل خانہ ان کی واپسی کی آس لگائے بیٹھے ہیں، وہیں غزہ پٹی کے رہائشی لاکھوں فلسطینیوں کو بدترین حالات کا سامنا ہے۔

سو روز ہونے کو آئے ہیں اور غزہ کی جنگ اب تک جاری ہے۔ فی الحال اس جنگ کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظر بھی نہیں آتا۔

اسرائیلی افواج کے مطابق غزہ پٹی کے علاقے میں ان کی جانب سے عسکریت پسند تنظیم حماس کی سرنگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن ان کارروئیوں کے دوران آئے روز پوری کی پوری بستیاں بھی تباہ ہو رہی ہیں۔ دوسری جانب حماس کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے سے شروع ہونے والی یہ جنگ 2024ء میں بھی جاری رہے گی۔

یعنی غزہ کے باسیوں کے لیے اذیت کی مدت سو دن سے کہیں زیادہ طویل ہوگی، جن کی عکاس گزشتہ سو دن کی تصاویر بھی کرتی ہیں۔

اسرائیل اور حماس کے مابین جاری تنازعے کی ابتدا سات اکتوبر کو ہوئی تھی، جب حماس نے اچانک اسرائیل میں ایک میوزک فیسٹیول، فارمنگ کمیونٹیز اور فوجی کیمپوں پر حملہ کیا تھا۔ ان حملوں کے بعد کے مناظر کی تصاویر میں شاہراہوں پر خون آلود لاشوں اور حماس کے جنگجوؤں کو لوگوں کو یرغمالی بنا کر لے جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

اس حملے میں تقریباً 1140 افراد ہلاک ہوئے تھے، اور اسرائیل میں عام شہریوں کی اموات کی تعداد کے حوالے سے یہ اب تک کا سب سے بڑا اور سب سے ہلاکت خیز واقعہ تھا۔ اس کے علاوہ حماس نے تقریباً ڈھائی سو افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا، لیکن ان میں سے کچھ کو اسرائیل کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں چھوڑ بھی دیا گیا تھا اور کچھ یرغمالیوں کی حماس کی قید کے دوران موت بھی واقع ہو چکی ہے۔

اس وقت بھی حماس نے 100 سے زیادہ افراد کو یرغمال بنایا ہوا ہے، جن کے اہل خانہ اپنے ان عزیزوں سے جدائی کا دکھ سہہ رہے ہیں۔ اسرائیل میں سڑک کنارے بنائی گئی گرافیٹی اور پر امن مظاہروں نے ان کے درد کو زندہ رکھا ہوا ہے اور اسرائیلی عوام اب حماس کے خاتمے کے لیے پر عزم نظر آتے ہیں۔

دوسری جانب روزانہ ہونے والے اسرائیلی راکٹ اور میزائل حملوں کے دوران غزہ کے شہریوں کو بھی بدترین صورتحال کا سامنا ہے۔ وہاں کی ہولناک صورتحال میں امدادی کارکن منہدم ہو جانے والی عمارتوں تلے دبی ننھے بچوں کی لاشیں نکالتے اور مردہ خانوں کے باہر کفن میں لپٹی اور قطاروں میں رکھی گءی لاشوں کے گرد ان کے لواحقین بین کرتے نظر آتے ہیں۔ جنگ کے دوران تباہی کا یہ عالم ہے کہ اسرائیلی حملوں میں پورے کے پورے خاندان ہلاک ہو چکے ہیں۔

غزہ پٹی میں صحت عامہ کا نظام بھی جنگ سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ جو چند ہسپتال اب بھی فعال ہیں، وہاں مریضوں کو فرش پر لیٹنا پڑ رہا ہے۔ ان میں سے کئی بچے ہیں، جو خون میں لت پت درد و تکلیف کے باعث روتے نظر آتے ہیں، جبکہ ڈاکٹروں کو بھی محدود وسائل کے ساتھ علاج کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔

گزشتہ تقریباً سو روز کے دوران اسرائیلی افواج کی بمباری اور زمینی حملوں کے باعث غزہ پٹی میں حماس کی وزارت صحت کے مطابق 23 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جو کہ وہاں کی 2.3 ملین کی مجموعی آبادی کا تقریباً ایک فیصد بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں کے کم و بیش تمام ہی رہائشیوں کو نقل مکانی کر کے غزہ کے جنوب میں واقع ایک محدود سے حصے میں مشکل ترین حالات میں رہنا پڑ رہا ہے۔

اسرائیل نے اس جنگ کے آغاز کے وقت غزہ کے شمالی علاقے کو ہدف بنایا تھا، جہاں اب تباہ شدہ عمارتوں کی ملبوں کے ڈھیر ہیں۔ غزہ شہر تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے اور کئی افراد جو ان علاقوں سے نقل مکانی کر چکے ہیں، ان کو ڈر ہے کہ یا تو وہ کبھی اپنے گھروں کو لوٹ نہیں پائیں گے یا ان کے رہائشی علاقے کبھی رہنے کے قابل ہوں گے ہی نہیں۔

اسرائیل نے اب غزہ کے جنوب میں رہنے والوں کو بھی نقل مکانی کرنے کے لیے کہا ہے۔ ان علاقوں میں اب ریسکیو ورکرز تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے کے نیچے سے زندہ انسانوں کو ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔ وہاں ایک خالی میدان نما جگہ پر بڑی تعداد میں امدادی کیمپ لگائے گئے ہیں اور جن مقامات پر کھانا تقسیم کیا جاتا ہے، وہاں لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت غزہ میں ہر چار میں سے ایک انسان فاقہ زدہ ہے۔

اس صورتحال کو سو دن ہونے کو آئے ہیں اور غزہ میں جنگ اب بھی جاری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں