حوثی بحیرۂ احمر میں بحری جہازوں پر حملوں کیلئے کون سے ہتھیار استعمال کر رہے ہیں؟

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) یمن کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ یمن کو سنہ 2014 میں تب خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ جب شیعہ مسلم حوثی تحریک نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا اور اُس کے بعد سے اب تک ملک میں خانہ جنگی جاری ہے۔

اس خانہ جنگی کے شروع ہونے کے بعد سے حوثیوں کے خلاف سعودی قیادت میں ایک اتحاد بنا جس نے یمن پر ایک طویل عرصہ تک فضائی کارروائیاں کیں۔ ان کارروائیوں کے باعث یمن میں نہ صرف مزید تباہی ہوئی بلکہ یہ مُلک میں غربت کا باعث بنیں۔

مُلک میں خانہ جنگی اور غربت کے باوجود حوثیوں نے گذشتہ سال نومبر سے بحری نقل و حمل میں خلل ڈالنے کی دھمکی دی اور اس معاملے میں اپنی صلاحیت کا مظاہرہ بھی کیا۔ حوثیوں کی جانب سے مال بردار بحری جہازوں پر حملوں کے بعد اب برطانیہ اور امریکہ نے جوابی کارروائی کی ہے۔

امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے یمن میں حوثی جنگجوؤں کے خلاف اس حالیہ کارروائی کے عالمی معیشت پر سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

یمن کہاں ہے اور خطے میں اس کی اہمیت کیا ہے؟

حوثیوں کے پاس سمندری نقل و حرکت میں خلل ڈالنے کی زیادہ تر طاقت یا مدد اس علاقے کے جغرافیائی محل وقوع سے آتی ہے جس پر ان کا کنٹرول ہے۔

ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں نے 2014 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے دارالحکومت صنعا، ملک کے شمال اور بحیرہ احمر کے ساحلی علاقوں سمیت یمن کے بڑے حصوں پر قابض ہیں۔

اس سے انھیں آبنائے باب المندب پر اختیار حاصل ہو گیا ہے، جس سے یورپ کو ایشیا سے جوڑنے والا سب سے چھوٹا بحری راستہ ان کے ہتھیاروں کی حدود میں آتا ہے یعنی وہ اس راستے سے گُزرنے والے کسی بھی مال بردار بحری جہاز کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

حوثی بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملے کیوں کر رہے ہیں؟

امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے مطابق یمن کے حوثیوں نے 19 نومبر 2023 سے اب تک جنوبی بحیرہ احمر اور خلیجِ عدن سے گزرنے والے مال برداد بحری جہازوں پر کم از کم 26 مختلف حملے کیے ہیں۔

حوثیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ حملے غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیوں کے جواب میں کیے گئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں اسرائیل سے رابطہ رکھنے اور اُس جانب جانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ حالیہ حملوں میں سے زیادہ تر ایسے بحری جہازوں پر کیے گئے ہیں جن کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حوثی ایسا اپنی مقبولیت بڑھانے اور اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے لیے کر رہے ہیں جبکہ غزہ کی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کو بطور اتحادی ثبوت دیا جا رہا ہے۔

حوثیوں کی موجودہ عسکری صلاحیت

بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حالیہ حملوں میں حوثیوں نے کروز میزائلوں، بیلسٹک میزائلوں، ڈرون اور بغیر عملے کے بحری جہازوں (یو ایس وی) کا استعمال کیا ہے۔

اپنے ابتدائی حملوں میں حوثیوں نے چھوٹی کشتیوں یا ہیلی کاپٹروں کا استعمال کرتے ہوئے بحری جہازوں پر بھی سوار ہونے یا ان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔

یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ حوثیوں نے جن یو اے ویز یا نام نہاد ’کامیکاز ڈرونز‘ کو ان علاقوں میں تعینات کیا وہ ’قصیف ڈرونز‘ ہیں جو طویل فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور ان کی مخصوص وی شکل کی دُم ہے۔ ابتدائی طور پر حوثیوں نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے دیرینہ تنازعوں میں استعمال کرنے کے لیے انھیں حاصل کیا تھا۔

واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے مطابق حوثیوں کے پاس 80 سے 300 کلومیٹر تک مار کرنے والے جہاز شکن کروز میزائل موجود ہیں جن میں ’سید‘ اور ’سیجل‘ میزائل بھی شامل ہیں۔

تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ حوثیوں کے اینٹی شپ بیلسٹک میزائل 300 کلومیٹر دور تک کے اہداف کو بھی با آسانی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ان میزائلوں کو روکنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ایک تو یہ طویل فاصلہ طے کرتے ہیں اور روسرا یہ برق رفتاری سے اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔

ان ڈرونز، بحری جہازوں یا فورسز کو ہدف کے بروقت نشانے کے لیے ’انٹیلی جنس معلومات کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

سمندری تاریخ دان سال مرکوگلیانو نے بی بی سی کو بتایا کہ بیلسٹک اور کروز میزائل ڈرونز کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ ’ان میں بڑے وار ہیڈز اور زیادہ تیزی سے حرکت کرنے کی قوت ہوتی ہے۔‘

مرکوگلیانو کا کہنا ہے کہ ’یک طرفہ ڈرونز کی تعداد زیادہ ہے، کیونکہ وہ سستے اور ایک ساتھ رکھنے میں آسان ہیں۔ لیکن اُن کی ایک بڑی خامی ہوتی ہے کہ وہ سست رفتار ہوتے ہیں۔‘

لیکن مرکوگلیانو کا ماننا ہے کہ یہ یو ایس وی ہیں جو ’غیر معمولی طور پر پریشان کن‘ ہیں، ’کیونکہ وہ پانی کی سطح پر بحری جہازوں سے ٹکرا جاتے ہیں، یعنی جہازوں سے ٹکرانے کے بعد یہ پانی میں جانے سے ڈوب جاتے ہیں۔‘

امریکی بحریہ کے مطابق شورش کے اس موجودہ ماحول میں حوثیوں نے پہلی بار 4 جنوری کو دھماکہ خیز مواد سے بھرے بغیر پائلٹ کے بحری جہاز کا استعمال کیا اور اس نے بین الاقوامی بحری گُزر گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔

امریکی بحریہ کے کمانڈر وائس ایڈمرل بریڈ کوپر نے اس حملے کو ’ایک نئی صلاحیت‘ کے استعمال کے طور پر بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی کسی بحری جہاز کو نشانہ بنایا گیا لیکن یو ایس وی پر یکطرفہ حملہ تشویش کا باعث ہے۔‘

تاہم سعودی حکومت کے مطابق حوثیوں نے جنوری 2017 میں سعودی فریگیٹ المدینہ پر حملے میں اور پھر ’مارچ 2020 میں یمن میں عدن جانے والے ایک تیل بردار بحری جہاز پر حملے کی ناکام کوشش‘ میں یو ایس وی کا استعمال کیا تھا۔

حوثیوں کو کس کی حمایت حاصل ہے؟

حوثیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے اور انھوں نے خود کو ’مزاحمت کی علامت‘ قرار دیا ہے، جس میں لبنان میں حزب اللہ، شام میں اسد حکومت، غزہ میں حماس اور اسرائیل اور امریکہ کے خلاف ایران کے حمایت یافتہ دیگر گروہ بھی شامل ہیں۔

فروری 2023 میں برطانوی حکومت نے کہا تھا کہ اس نے اقوام متحدہ کے سامنے ایسے شواہد پیش کیے ہیں جو ایرانی ریاست اور حوثیوں کی جانب سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر حملے کے لیے استعمال کیے جانے والے میزائل سسٹم کی سمگلنگ کے درمیان براہ راست تعلق کی نشاندہی کرتے ہیں۔

برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ رائل نیوی کے جہاز ایچ ایم ایس مونٹروز نے 2022 کے اوائل میں دو مواقع پر ایران کے جنوب میں بین الاقوامی پانیوں میں سمگلروں کی جانب سے چلائی جانے والی سپیڈ بوٹس سے ایرانی ہتھیار ضبط کیے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس حملے میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل، زمین سے زمین تک مار کرنے والے کروز میزائلوں کے انجن اور جاسوسی کی سرگرمیوں کے لیے ڈیزائن کیا گیا کمرشل کواڈ کوپٹر ڈرون شامل ہیں۔

کیا امریکہ کی زیر قیادت حملے حوثیوں کو روک سکیں گے؟

امریکہ، برطانیہ اور ایک درجن دیگر ممالک حوثیوں کو خبردار کر رہے ہیں کہ وہ اپنے حملے بند کر دیں اور دسمبر 2023 میں جنوبی بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں سلامتی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ’آپریشن پروسپیریٹی گارڈین‘ کے نام سے ایک کثیر القومی فورس کو اکٹھا کیا۔

جمعرات 11 جنوری کی رات کو، اس اتحاد نے جوابی حملہ کیا۔

امریکی فضائیہ کا کہنا ہے کہ امریکی افواج نے برطانیہ، آسٹریلیا، بحرین، کینیڈا اور ہالینڈ کے تعاون سے یمن میں حوثی جنگجوؤں کے زیر استعمال 16 مقامات پر 60 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا۔

لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے برسوں کے فضائی حملے حوثیوں کو مکمل طور پر شکست دینے میں ناکام رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں