مردان میں سکھ برادری کا امرجیت سنگھ قاتلانہ حملے میں شدید زخمی

مردان (ڈیلی اردو/ٹی این این) صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں سکھ برادری کا امرجیت سنگھ قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوگیا۔ گزشتہ روز مردان میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے الیکٹرک مکینک امر جیت سنگھ پر نامعلوم وجوہات کی بناء پر ایک بیس سالہ لڑکے نے قاتلانہ حملہ کیا جس میں وہ شدید زخمی ہوگیا۔ اس دوران مارکیٹ میں موجود دوسرے دکاندار بعرض بچاو جمع ہوگئے جسکی وجہ سے حملہ آور بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔

ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال مردان میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے زخمی امر جیت سنگھ نے ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انکی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حملہ کرنے والا لڑکا مارکیٹ میں کچھ عرصہ سے فروٹ فروخت کرتا تھا آج حسب معمول وہ مارکیٹ میں موجود تھا جب میں نے اپنے شاگرد کو ایزی لوڈ کے لئے دکان سے باہر بھیجا تو اسی اثناء میں اس لڑکے نے جس کی عمر تقریباََ 20 سال ہے، اچانک مجھ پر تیزدار چھری سے حملہ کیا۔

اس دوران میرے چیخنے پر مارکیٹ کے دیگر دکاندار مجھے بچانے کے لئے جمع ہوگئے اور مجھے ہسپتال لے گئے۔ امرجیت سنگھ کے مطابق انکی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے اور وہ اپنا کاروبار کرتے ہیں کسی سے جھگڑا یا دشمنی نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور متعلقہ اداروں سے گزارش ہے کہ ہمیں تحفظ دیا جائے اور اگر وہ تحفظ نہیں دے سکتے تو پھر ہمیں سپورٹ دیں تاکہ ہم کسی اور ملک نقل مکانی کریں کیونکہ ہمیں اپنے دشمنوں کا کچھ علم نہیں۔

دوسری طرف اقلیتی برادری کے ڈویژنل صدر اشوک کپور جنہوں نے ملزم کے خلاف مردان سٹی تھانہ یں ایف آئی ار درج کرائی ہے، نے کہا کہ ہم پرامن لوگ ہیں ہم چونکہ اقلیت میں ہیں تو ہمیں اس طرح تحفظ حاصل نہیں جس طرح یہاں پر عام شہری کو حاصل ہے۔ کپور نے کہا کہ یہ واقعہ معمولی نوعیت کا نہیں بلکہ یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے کہ کس طرح دن دیھاڑے ایک بیس سالہ لڑکا بھرے بازار ایک شخص پر حملہ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں بھی ہماری برادری کے لوگوں کو نامعلوم افراد نے دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے مگر بدقسمتی سے تاحال ان افراد کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔ کپور نے بتایا کہ ہم ریاستی اداروں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اقلیتوں کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ملزمان کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ اس ملک میں اقلیت سکون سے زندگی گزار سکیں۔

دوسری جانب ایس پی سٹی انعام جان خان نے مقامی خبر رساں ایجنسی ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کا نام عمر ولد اکرام ہے جسکی عمر تقریبا بیس سال ہے اور منصب کلے مردان کا رہائشی ہے۔ انعام جان خان نے بتایا کہ ملزم کا امر جیت کے ساتھ ایک عرصے سے چپقلش چل رہا تھا اور کئی دفعہ ایک دوسرے زبانی تکرار بھی کر چکے ہیں، جسکے نتیجے میں اس نے آج ایسا قدم اٹھایا ہے اور اس پر چھری حملہ کیا ہے۔

مردان سٹی تھانہ ایس ایچ او مقدم خان نے کیس کارروائی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ کہ ہم نے مردان میں تمام اقلیتی برادری کے مذہبی رسومات اور انکی عبادت گاہوں کو خصوصی سیکورٹی دی ہے۔ یہاں تک کہ کئی جگہوں پر انکے گردواروں، چرچز، مندروں اور دیگر عبادت گاہوں کو پولیس گارڈ بھی دیئے ہوئے ہیں. انہوں نے کہا کہ ہم نے حملہ کرنے والے لڑکے کو گرفتار کر لیا ہے اور پتہ کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ ملزم ذہنی طور پر کمزور ہے۔

اقلیتی برداری کے صدر اشوک کپور نے کہا کہ کل سے ہمارے گردوارے میں مذہبی رسومات جسے ہم اکنڈ پات صاحب کہتے ہیں شروع ہوا ہے جوکہ تین دن جاری رہے گا اور اس تقریب میں سینکڑوں کی تعداد میں ہماری برادری کے مرد و خواتین شرکت کریں گے مگر اس واقعے کی وجہ سے ہماری برادری میں ایک خوف کا سماں ہے جس کی وجہ سے یہاں آنے والوں کی تعداد میں نہ صرف کافی کمی آئی ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے بچے اور خواتین بہت خوفزدہ ہیں کہ اگر ہماری ریاست ہمیں تحفظ نہیں دے سکتے تو مجھے ڈر ہے کہ ہمارے لوگ ایک دفعہ پھر نقل مکانی شروع نہ کردے۔ کپور نے مزید کہا کہ ہم نے پاک انڈیا بٹوارے میں یہاں پر رہنے کو ترجیح دی مگر ایسے واقعات قابل افسوس ہے۔ اشوک کپور نے کہا کہ یہاں پر ہمارے سکھ برادری کے 62 گھرانے ہیں جبکہ 200 کے لگ بھگ ہندو گھرانے بھی آباد ہے اور اس طرح عیسائی برادری کے بھی کافی لوگ آباد ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دہشت گرد نہ ہم میں سے ہیں اور نہ ہی انکا کوئی مذہب معلوم ہے۔

رام سنگھ نے ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ نہایت افسوسناک ہے کہ ایک پرامن شہری پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے وہ بھی دن کی روشنی میں بس ہم بے چارے ریاستی اداروں سے تحفظ کی اپیل کرتے ہیں ہم پر امن پاکستانی ہے مگر ہمیں کوئی تحفظ حاصل نہیں کیونکہ اگست 2014 میں میرا بھائی امر جیت ککڑ کو بھی نامعلوم دہشتگردوں نے قتل کیا تھا اور آج 9 سال گزرنے کے باوجود بھی تاحال انکے قاتلوں کا کچھ پتہ نہیں چلا۔

انہوں نے کہا کہ شروع دنوں میں تھوڑا سا زور و شور رہا یہاں تک کہ اسمبلیوں تک بات گئی ہمیں یقین بھی ہوگیا تھا کہ اب ملزمان کو کیف کردار تک پہنچایا جائے گا لیکن آہستہ آہستہ بات ختم ہوگئی۔ رام سنگھ نے بتایا کہ ایسے واقعات سے بچے اور بڑے بلخصوص خواتین بہت گھبراہٹ کا شکار ہوتے ہیں خوف کہ وجہ سے کوئی گھر سے نکلتا نہیں اور گھروں تک محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ رام سنگھ نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ہماری بدقسمتی یہی ہے کہ جب اقلیتی برادری پر کوئی ظلم وجبر ہوتا ہے تو ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں لیکن تھوڑا سا وقت گزرنے کے بعد پھر سب ختم اور نئے واقعے کا انتظار شروع ہوجاتا ہے. انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کے لئے ٹھوس قانون سازی اور اس پر عمل بہت ضروری ہے۔

بیم سنگھ نے کہا کہ ہمارے اباؤاجداد اس مردان شہر میں آبادہے اس واقعہ سے دلی صدمہ ملا ہے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ایک بندہ اپنی حلال کمائی کے لیے دکان پر مزدوری کرتا ہے اور کوئی شخص دن دیھاڑے آکر انہیں قتل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری برادری کے لوگ ایسے واقعات کی وجہ سے انتہائی پریشان ہیں اور آج گوردوارے میں ہونے والے سنگت میں بھی شامل نہیں ہوئے۔

زخمی امر جیت کے سولہ سالہ بیٹے بھرت سنگھ نے کہا کہ جب میں سکول سے واپس گھر آیا تو معلوم ہوا کہ بابا جان پر کسی نے چھری سے قاتلانہ حملہ کیا ہے تو میرے اوسان خطا ہوگئے۔ انتہائی پریشانی کی حالت میں ماں کو ساتھ لیکر ہسپتال گیا. انہوں نے بتایا کہ پورے راستے اس سوچ میں گم تھا کہ بابا زندہ بھی ہوں گے یا نہیں؟ ہسپتال پہنچ کر بابا کو دیکھا تو یقین نہیں آرہا تھا کیونکہ صبح سکول جاتے بابا نے مجھے سکول چھوڑا تھا جو کہ صحیح سلامت تھا اور اب ہسپتال کے بستر پر۔

اقلیتوں کے حقوق کے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے سائبان ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن کے صدر عارف خان نے کہا کہ مردان شہر اس حوالے سے نہایت پر امن شہر ہے اور ہمارے پختون روایات کی وجہ سے اقلیتی برادری نہایت پر امن زندگی گزار رہی ہیں یہاں تک کہ ہم نے اپنے آرگنائزیشن میں بطور پریس سیکرٹری اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے مہندر دیوی کو اپنے ساتھ کام پر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس واقعے کی بھرپور مزمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان ملزم کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی مردان کی پرامن فضا کو خراب کرنے کی جرات نہ کر سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں