سنی علیحدگی پسند تنظیم ’جیش العدل‘ ایران کا ہدف کیوں ہے؟

تہران + اسلام آباد (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) پاکستان کے سرحدی صوبے بلوچستان میں مبینہ کالعدم علیحدگی پسند گروپ جیش العدل کو نشانہ بنانے والے ایران کے فضائی حملے نے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ایران میں بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ’جیش العدل‘ ہے کون؟

سنی گروپ جیش العدل — یہ کون ہیں؟

جیش العدل یا انصاف کی فوج، 2012 میں منظر عام پر آئی تھی۔ یہ زیادہ تر سنی عسکریت پسند گروپ جنداللہ کے ارکان پر مشتمل ہے جو اس کے بعد کمزور پڑ گیا تھا جب ایران نے اس کے زیادہ تر ارکان کو گرفتار کر لیا تھا۔ ایران مخالف گروپ، ایران کے مشرقی صوبے سیستان اور پاکستان کے جنوب مغربی بلوچستان صوبے کی آزادی چاہتا ہے۔ ان کے یہ مقاصد دونوں حکومتوں کے لیے ایک مشترکہ ہدف بناتے ہیں۔

جیش العدل بلوچستان میں کیوں ہے؟

اس کے ارکان نسلی بلوچ برادری سے تعلق رکھتے ہیں، اور یہ سرحد کی دونوں جانب آباد ہیں۔

پاکستان اصرار کرتا ہے کہ گروپ کی صوبے میں یا کہیں اور کوئی منظم موجودگی نہیں ہے۔ تاہم وہ تسلیم کرتا ہے کہ ہو سکتا ہے کچھ عسکریت پسند بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں چھپے ہوئے ہوں جو کہ رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور طویل عرصے سے جاری شورش کے سبب ملک کا سب سے حساس علاقہ ہے۔

علیحدگی پسند اور قوم پرست امتیازی سلوک کی شکایت کرتے ہیں اور اپنے صوبے کے وسائل اور دولت میں اپنا جائز حصہ چاہتے ہیں۔

جیش العدل گروپ، پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی کا باعث کیوں ہے؟

ایران اور جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان طویل عرصے سے عسکریت پسندوں کے حملوں کے حوالے سے ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں ایران اور پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اور دونوں فریق ایک دوسرے پر عسکریت پسندوں کی طرف سے آنکھیں بند کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے بلوچ علیحدگی پسندوں کی ایران میں موجودگی سے متعلق ثبوت ایران کو فراہم کیے ہیں، جہاں سے وہ سرحد پار پاکستانی سیکیوریٹی فورسز پر حملے کرتے ہیں۔

پاکستان کا مزید کہنا ہے کہ اس نے جیش العدل کے کچھ ارکان کو گرفتار کیا ہے کیونکہ وہ ایران میں متعدد حملوں کے ذمہ دار تھے۔

جیش العدل گروپ اکثر پاکستانی سرحد کے نزدیک ایرانی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتا ہے اور عسکریت پسند پاکستان میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں حکام سرحد کو محفوظ بنانے اور مزید چوکیاں قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دوسری طرف بلوچ عسکریت پسند، صوبے میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے رہتے ہیں، جس کی افغانستان اور ایران سے ملحق سرحدیں ہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ علیحدگی پسندوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔

جیش العدل کی پیشرو، جنداللہ دہشت گردوں کی امریکی فہرست میں شامل ہے

جنداللہ تنظیم 2003ء میں وجود میں آئی، اس سنی گروپ کا دعویٰ ہے کہ وہ ایران کے بلوچ نسل کے لوگوں کے حقوق کے لیے جنگ کر رہا ہے۔ اس نے بموں کے کئی دھماکے کیے ہیں۔ ایک حملہ زاہدان کی ایک مسجد میں ہوا جس میں 27 افراد ہلاک ہوئے۔ ان حملوں میں عموماً ایران کے پاسدارانِ انقلاب کو نشانہ بنایا گیا۔

ایران نے امریکہ پر الزام لگایا تھا کہ وہ ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش میں، خفیہ طور پر جند اللہ کی پشت پناہی کرتا رہا ہے ۔ امریکہ نے اس گروپ کی مدد کرنے کے الزام سے انکار کیا ہے۔

امریکہ نے 2010 میں جنداللہ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ اس سے قبل ایران ایک عرصے سے امریکہ پر جنداللہ کی حمایت کرنے کا الزام عائد کرتا رہا تھا۔

امریکہ کے جنداللہ کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کی وجوہات کے متعلق، وی او اے اردو ویب نے، اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ کچھ عرصے سے جند اللہ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے پر غور کرتی رہی تھی، لیکن جون 2009 کے ایران کے متنازع صدارتی انتخاب اور اس کے بعد ایرانی حکومت کی طرف سے حزبِ اختلاف کے خلاف کارروائیوں کے بعد انتظامیہ نے فیصلہ کیا تھاکہ وہ ایران کو کوئی ایسا اشارہ نہیں دے گی جس سے مصالحت کی خواہش کا اظہار ہوتا ہو۔

کانگریشنل ریسرچ سروس کے تجزیہ کار Ken Katzman نے 2010 کے اس آرٹیکل میں اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اوباما انتظامیہ کے اس اقدام کا تعلق ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کوشش سے ہو سکتا ہے۔

بقول ان کے،”ہو سکتا ہے کہ یہ کہنے کی کوشش کی جا رہی ہو کہ ہم نے نئی پابندیاں لگا دی ہیں اور دوسری حکومتوں نے بھی بالکل ایسا ہی کیا ہے، اور اب ہم یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارا مقصد کسی ملک کو سزا دینے کا نہیں ہے، نہ ہم کسی ملک کی حکومت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم تو مذاکرات چاہتے ہیں اگر ہمارا کوئی ایسا رابطہ ہو جائے جو جوہری مسئلے پر بات چیت کے لیے سب کو قابلِ قبول ہو۔“

وائس آف امریکہ اردو سروس کے ویب کی جانب سے ماضی میں رپورٹ کی جانے والی ’جیش العدل‘ کی کچھ کارروائیاں

مئی 2017 میں ایران کے اس وقت کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ پاکستان کا ایک روزہ دورہ کیا، جس میں خاص طور پر ایک ہفتہ قبل کے حملے پر بات کی گئی، جس میں ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں دہشت گردوں نے حملہ کر کے ایران کے 10 سرحدی محافظوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

اردو ویب کی رپورٹ کے مطابق ایرانی حکام کا کہنا تھا یہ حملہ شدت پسند تنظیم ’جیش العدل‘ نے کیا اور حملہ آور کارروائی کے بعد پاکستانی حدود کی جانب فرار ہو گئے۔

اس ورٹ میں تجزیہ کار بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) سعد محمد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا تھا کہ ایران پاکستان میں موجود سنی شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی چاہتا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تعاون کرنا ہو گا۔

بقول ان کے’’پاکستان کو یہ مکمل کوشش کرنی چاہیئے کہ پاکستان کا علاقہ (کسی ملک کے خلاف) استعمال نہ ہو، لیکن بلوچستان میں ایسا بہت مشکل ہے کیونکہ یہ بہت وسیع علاقہ ہے اور ہر جگہ (سیکیورٹی فورسز کو ) نہیں رکھ سکتے ہیں۔‘‘

23 اکتوبر 2018 کو ایک اور ویب رپورٹ میں ایران کے سرکاری خبررساں ادارے ارنا کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ کہ ایک دہشت گرد گروپ جیش العدل نے 16 اکتوبر کو دو تصاویر شائع کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایرانی سیکیورٹی اہل کاروں کو اغوا کیا ہے۔

ارنا کے مطابق جیش العدل نے جو تصویریں شائع کی ہیں ان میں اغوا کیے جانے والے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے 7 اہلکاروں اور 5 پولیس کمانڈوز کو دکھایا گیا ہے۔

ایرانی سیکیورٹی اہل کاروں کو، جن میں انٹیلی جینس کے عہدے دار بھی شامل ہیں، سیستان بلوچستان کے صوبائی ہیڈ کوارٹرز زاہدان سے 150 کلومیٹر دور جنوب مشرق میں لولکدان نامی قصبے سے اغوا کیا گیا تھا۔

لولکدان نامی گاﺅں ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان کے شہر زاہدان کے جنوب مشرق میں 150 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 14 اہل کاروں میں سے 2 ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے حساس شعبے سے تعلق رکھتے تھے۔

پاکستان کے اندر ایرانی حملے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟

ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اس حملے پر احتجاج کے لیے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، بدھ کے روز ایران سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ دونوں ہی ملک ایک دوسرے کو اشتعال دلانے کے حوالے سے محتاط ہیں۔

اقتصادی دشواریوں کے شکار پاکستان کی جانب سے کسی فوجی رد عمل کا امکان نہیں ہے کیونکہ اس کے میزائل نظام بنیادی طور پر بھارت کی جانب سے ممکنہ خطرات کا جواب دینے کے لیے اس کی مشرقی سرحد پر لگائے گئے ہیں۔

اسلام آباد میں پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے بدھ کو اپنے ایرانی ہم منصب کو ٹیلی فون کال پر بتایا کہ یک طرفہ کارروائیوں سے علاقائی امن اور استحکام کو نقصان پہنچ سکتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں