پاکستانی سرزمین پر حملہ، ایران کو ’برادر‘ ملک کے خلاف ایسی کارروائی کی ضرورت کیوں پڑی؟

تہران + اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) منگل کی شب پاکستان کے اندر ایک ہدف پر ایران کا ’میزائل اور ڈرون‘ حملہ اس خطے اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں بے چینی کا باعث بنا ہے۔ پاکستان میں کی گئی کارروائی زیادہ اہمیت حاصل کر رہی ہے حتیٰ کہ ایران نے اس سے قبل عراق کے کردستان علاقے میں اربیل اور شام کے شہر ادلب میں بھی اہداف پر میزائل داغے تھے۔

جہاں ایک طرف پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اسے ’اشتعال انگیز کارروائی‘ قرار دیا جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو نقصان پہنچایا وہیں ان کے ایرانی منصب حسین امیر عبد اللہیان نے واضح کیا کہ ’ہم آپ کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرتے ہیں تاہم ہم اپنی قومی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔‘

ایرانی وزیر خارجہ کے مطابق ایران نے پاکستان میں ’ایرانی دہشتگرد گروہ‘ جیش العدل کو نشانہ بنایا جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا کہ اس سرحد پار کارروائی میں ’دو معصوم بچوں کی ہلاکت ہوئی۔‘

پاکستان نے سرحدی خلاف ورزی پر ایران سے اپنے سفیر کو بھی واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔

ایران کی سرحد پار فضائی کارروائیاں

ایران کی طرف سے عراقی سرزمین پر، خاص کر کردستان علاقے میں، اہداف کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ایران کے مطابق وہاں ایران مخالف گروہوں نے پناہ لے رکھی ہے تاہم عراقی حکومت اس کی تردید کرتی ہے۔

ماضی میں اسی شدت سے ان حملوں میں ڈرون، توپ خانے اور راکٹ استعمال کیے جاچکے ہیں۔

ایران نے شام کے اندر بھی بعض اہداف پر میزائل حملے کیے جس کی شدت بظاہر عراق میں کیے گئے حملوں کے مقابلے میں کم ہے تاہم ادلب میں کیے گئے حملے ایرانی میزائلوں کی قوت اور رینج کے اعتبار سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

یہ کم ہی دیکھا گیا ہے کہ ایران پاکستانی حدود میں کسی ہدف پر اس طرح کا حملہ کرے، خاص کر اگر اس کی ٹائمنگ کو مدنظر رکھا جائے۔

مقامی حکام کے مطابق ایرانی ’میزائل اور ڈرون حملہ‘ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر پنجگور کے قریبی علاقے سبز کوہ میں کیا گیا جو ایک دشوار گزار جگہ ہے۔

اطلاعات ہیں کہ ایران نے ماضی میں پنجگور اور کیچ کے مختلف علاقوں کو نشانہ بنایا لیکن انداز، شدت اور وقت بالکل مختلف تھے۔ بعض صورتوں میں تو میڈیا کو اس کی اطلاع بھی نہیں دی گئی۔

’بردار‘ ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ
ایران پاکستان تعلقات میں ہمیشہ اُتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ اگرچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ 2021 سے یہ تعلقات اپنی بہترین سطح پر ہیں۔

بعض صورتوں میں کشیدگی پاکستان میں سنی اور شیعہ گروہوں کے درمیان تنازعات کا باعث بنی جس سے جانی نقصان بھی ہوا۔ 1990 میں لاہور میں ایران کے ’ثقافتی نمائندے‘ صدیق گنجی اور 2009 کے دوران پشاور میں ایرانی قونصل خانے کے ملازم ابوالحسن جعفری دونوں کو قتل کیا گیا۔

اسی طرح سیستان اور بلوچستان میں ایران مخالف گروہوں کے حملوں میں ایرانی فورسز کو بہت نقصان پہنچا جن میں بڑی تعداد میں ایرانی فوجی ہلاک یا زخمی ہوئے۔

2008 کے دوران سیستان اور بلوچستان کے جنوب میں انھی حملوں میں سے ایک میں ایران کے طاقتور فوجی دستے پاسدارانِ انقلاب (آئی آر جی سی) کے ایک سینیئر کمانڈر کی ہلاکت ہوئی جس کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم جند اللہ نے قبول کی۔

آئی آر جی سی کی زمینی افواج کے ڈپٹی کمانڈر اور قدس بیس کے کمانڈر نور علی شوشتری اور صوبہ سیستان و بلوچستان کے کمانڈر رجب علی محمد زادہ اس حملے کے متاثرین میں شامل تھے۔ اس خودکش حملے میں ہلاک ہونے والوں میں ایرانشہر کور کے کمانڈر، سپاہی کور کے کمانڈر اور امیر المومنین بریگیڈ کے کمانڈر کو بھی ہلاک کیا گیا ہے۔

جون 2007 میں صوبہ سیستان اور بلوچستان میں ایران پاکستان سرحد پر واقع سراوان پولیس سٹیشن میں متعدد ایرانی فوجیوں کو یرغمال بنایا گیا۔ ایرانی حکام نے پاکستان سے ’تعاون‘ کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس کے مخالف گروہوں کی قیادت کو حوالے کیا جائے جنھوں نے اس کے بقول پاکستان میں پناہ لے رکھی ہے۔ یرغمال بنائے گئے ایرانی فوجیوں کے بارے میں بعد میں یہ اطلاع سامنے آئی تھی کہ انھیں ہلاک کر دیا گیا۔

ایرانی حکام نے بعض معاملات میں کھل کر کہا کہ اگر پاکستان ایسی کارروائی کی صلاحیت نہیں رکھتا تو ایران خود ان کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔

پاکستان نے اپنی سرزمین میں ایرانی حکومت کے مخالفین کے لیے کسی پناہ گاہ کی موجودگی سے انکار کیا ہے اور اسے جھوٹا دعویٰ قرار دیتا ہے۔

مگر ایسے تمام بڑے واقعات کے بعد بھی ایران کی جانب سے منگل کی شب جیسا ردعمل نہیں آیا۔

ان تمام معاملات میں دونوں ممالک نے مشترکہ سرحدی کمیٹیوں کے قیام کی بات کی لیکن ان کی تفصیلات یا ان کی سرگرمیوں کے بارے میں کبھی کوئی سرکاری رپورٹ شائع نہیں کی گئی۔

ان مسائل کے باوجود ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ ان میں بعض باتوں پر اختلاف رائے موجود ہے۔ مثلاً کابل یا اسلام آباد کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات جس کے باعث ایران سے پاکستان گیس کی فراہمی کے لیے ’امن پائپ لائن‘ تعطل کا شکار رہی۔

یہی وجہ ہے کہ حالیہ حملہ ’برادرانہ‘ سمجھے جانے والے باہمی تعلقات کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔

حملے کی ٹائمنگ

بلوچستان خطے میں ایران اور پاکستان دونوں کو چیلنجز درپیش رہتے ہیں جہاں مرکزی حکومتوں کے خلاف مختلف گروہ سرگرم ہیں۔

دونوں ملکوں کے لیے افغان سرحد پر بھی مسائل جنم لیتے ہیں جو اب طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ جیسے پاکستان انڈیا کے ساتھ مشرقی سرحد پر مشکلات کا سامنا کرتا ہے ویسے ہی مشکلات کا سامنا ایران اپنی مغربی سرحدوں پر کرتا ہے۔

سیستان و بلوچستان خطے میں تناؤ کے باوجود بظاہر دونوں ملکوں کی زیادہ تر توجہ اپنی دوسری سرحدوں کی طرف رہی ہے لہذا انھوں نے ایک اور سرحد پر کشیدگی سے گریز کیا اور اِن مسائل کی اہمیت کے باوجود انھیں حل کرنے کی باہمی کوشش کی۔ شاید اسی لیے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دونوں کے درمیان سرحدی کشیدگی اس نہج پر جا پہنچے جو اب دیکھی جا رہی ہے۔

اسی لیے پاکستان کی سرزمین پر ’جیش العدل پر‘ ایرانی حملہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اس لیے بھی بڑی بات تھی کیونکہ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب دونوں ملکوں کے حکام (پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان) ڈیوس میں ورلڈ اکنامک سمٹ کے دوران ملاقات کر رہے تھے۔

ایران کے خبر رساں ادارے اسنا کے مطابق امیرعبداللہیان نے اس ملاقات کے دوران ’دہشتگردی سے لڑائی کو دونوں ملکوں کے لیے تشویش کا باعث سمجھا اور زور دیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ماضی کے سمجھوتوں پر عملدرآمد کیا جائے۔‘

اسی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان اور ایران خطے میں ایک ہی چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں۔ ’انھوں نے دہشتگردی کے خطرے کو محدود کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں اور تعاون پر زور دیا۔‘

ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا نے منگل کی رات دونوں ملکوں کے مشترکہ فوجی مشقوں کا بھی بتایا۔

ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حملے کی واضح وجوہات کو سمجھنا مشکل ہے مگر یہ واضح ہے کہ اس نے سفارتی تناؤ کو جنم دیا ہے۔

جہاں بلوچستان خطے میں ایران مخالف گروپ کی سرگرمیاں جاری ہیں وہیں کرمان میں حالیہ خودکش حملہ میں بڑی تعداد میں لوگوں کی ہلاکت ہوئی۔ یہ پاکستانی سرزمین پر ایرانی حملے کی بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔

کرمان حملے کی ذمہ داری نام نہاد دولت اسلامیہ نے قبول کی تھی تاہم ایران اسرائیل کو ان حملوں میں ملوث سمجھتا ہے۔ بعض ایرانی حکام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ملکی سرحدوں پر اسرائیل متحرک رہتا ہے۔

ایران کی وزارت انٹیلیجنس نے کہا تھا کہ کرمان حملے میں ملوث لوگوں میں سے ایک ’جنوب مشرقی سرحد سے غیر قانونی طور پر مقامی سمگلروں کے ذریعے داخل ہوا۔ اس کے ساتھ ایک خاتون اور بچہ تھا۔‘ ان کے مطابق اس نے کرمان کے گرد و نواح میں کرایے کے مکان میں رہائش اختیار کر رکھی تھی۔

ایرانی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری بارڈر گارڈ کمانڈ کے پاس ہے جو ایران کی پولیس کمانڈ کے ساتھ منسلک ہے۔ تاہم 2014 سے سیستان و بلوچستان سرحد کی 300 کلو میٹر کے حساس علاقوں کی ذمہ داری پاسداران انقلاب کی قدس بیس کو دی گئی تھی۔ یہاں وہ علاقہ بھی شامل ہے جس کی سرحد ایران، پاکستان اور افغانستان سے ملتی ہے۔

دوسری طرف پاکستانی سر زمین پر حملے کو اس نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ مقامی سطح پر پذیرائی حاصل کرے اور اسے سراہا جائے۔

ایک طرح سے عراق اور شام کے بعد پاکستان میں حملہ پاسداران انقلاب کی طاقت کو بھی ظاہر کرتا ہے، یعنی تہران یہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے نتائج بھی بھگت سکتا ہے۔

اگرچہ اس نوعیت کے حملوں سے تناؤ بڑھ سکتا ہے تاہم اس سے ہونے والی فضائی حدود اور علاقائی خود مختاری کی خلاف ورزیوں سے ایرانی فوجی حکام مغرب کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اس کا بھی خطے میں ایک کردار ہے۔ مغربی ممالک اکثر ایران پر خطے میں عدم استحکام پھیلانے کا الزام لگاتے ہیں۔

مگر اب پاکستانی سرزمین پر حملہ ایک ایسی بازی ہے جو شاید وہ نتائج نہ دے سکے جو اس کی حکمت عملی بنانے والے چاہتے تھے۔ خطے میں ایرانی سرگرمیوں اور سفارتی میدان میں اس نے تہران کے لیے بڑی مشکلات کھڑی کی ہیں جن کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں