ایران اور پاکستان کیلئے دردِ سر بننے والے عسکریت پسند سرحدی علاقوں میں کیسے آپریٹ کرتے ہیں؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان اور ایران کے بلوچ آبادی والے صوبے بلوچستان (پاکستان) اور سیستان و بلوچستان (ایران) طویل عرصے سے بدامنی اور شورش کا شکار رہے ہیں۔

ماضی میں ایران کی جانب سے پاکستان پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا کہ ایران میں شدت پسندی کی کاروائیوں میں ملوث گروہوں کے ٹھکانے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں موجود ہیں۔ دوسری جانب گذشتہ چند برسوں کے دوران بلوچستان کے مکران ڈویژن کے تین اضلاع میں عسکریت پسندوں کی کاروائیوں پر پاکستانی حکام کی جانب سے بھی یہ الزام عائد کیا جاتا رہا کہ ان کاروائیوں میں ملوث مسلح کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے ٹھکانے ایران میں موجود ہیں۔

ماضی میں دونوں ممالک اپنے اپنے ملک میں ہونے والی تخریبی کارروائیوں کے بعد ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے اور ایک دوسرے کے سفارتی عملے کی طلبی جیسے اقدامات کرنے پر انحصار کرتے رہے لیکن ایسا پہلی بار ہوا کہ دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز نے ایک دوسرے کی علاقائی حدود میں حملے کیے ہیں۔

ایران کی جانب سے منگل کی شب جیش العدل نامی شدت پسند تنظیم کے پنجگور میں مبینہ ٹھکانوں پر حملہ کیا گیا جبکہ اس کے 36 گھنٹوں کے اندر پاکستان کی جانب سے ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں کاروائی کی گئی۔

پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ کارروائی ایران میں کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) اور کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مبینہ ٹھکانوں کے خلاف کی گئی۔ تاہم دونوں کالعدم تنظیموں نے ایران میں اپنے ٹھکانوں کی موجودگی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایران میں پاکستان نے عام بلوچوں کو نشانہ بنایا۔

پاکستان کے سابق نگراں وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کے بارے میں دفترِ خارجہ وقتاً فوقتاً نہ صرف ایرانی حکومت کو ڈوزیئر دیتا رہا ہے بلکہ ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کرتا رہا ہے۔

ادھر ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے گذشتہ روز ورلڈ اکنامک فورم میں ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ایرانی شدت پسند تنظیم جیش العدل نے ’پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے کچھ حصوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ ہم نے اس معاملے پر کئی بار پاکستان کے سکیورٹی حکام سے بات کی ہے۔‘

پاکستان اور ایران کے درمیان سرحد کا تعین کب ہوا اور دونوں جانب کون آباد ہے؟

پاکستان اور ایران کے درمیان اس وقت جو سرحد ہے اس کا تعین برطانوی دورِ حکومت میں کیا گیا تھا۔ سنہ 1871 میں اس علاقے میں سرحد کا تعین ایک انگریز افسر گولڈ سمتھ کی سربراہی میں کیا گیا جس کے باعث قیامِ پاکستان سے قبل یہ سرحد ’گولڈ سمتھ لائن‘ کے نام سے مشہور تھی۔

قیامِ پاکستان کے بعد ایران اور پاکستان کے درمیان سرحدی حدود میں تھوڑی تبدیلی کی گئی جس کے باعث گولڈ سمتھ لائن کے متعدد حصے ایران کی حدود میں چلے گئے جن میں میرجاوہ کا علاقہ بھی شامل تھا۔

پاکستان اور ایران کی سرحدوں کے دونوں جانب بلوچ قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔

دونوں ممالک کے بلوچ آبادی والے علاقوں میں موجود علیحدگی پسند گروہ اس سرحد کو تسلیم نہیں کرتے اور قیامِ پاکستان کے بعد سے ایسی تنظیمیں دونوں ممالک میں شورش برپا کرتی رہی ہیں۔

بلوچستان کی تاریخ اور حالات پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی انور ساجدی کا کہنا ہے کہ 1970 میں بلوچستان میں اٹھنے والی شورش کو کچلنے کے لیے شاہِ ایران نے بھی پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’شاہ ایران کو یہ خطرہ تھا کہ سرحد کے اُس پار جو شورش ہے وہ ایران کی طرف بھی پھیل سکتی ہے، اسی لیے انھوں نے پاکستان کی ہر طرح سے مدد کی تھی۔‘

پاکستان اور ایران کے درمیان سرحد 900 کلو میٹر سے بھی زیادہ طویل ہے جس پر پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے پانچ اضلاع واقع ہیں۔ ان اضلاع میں چاغی، واشک، پنجگور، کیچ اور ساحلی ضلع گوادر شامل ہیں۔

ایران میں سیستان و بلوچستان کا ہیڈکوارٹر زاہدان ہے جبکہ اس کے دیگر معروف علاقوں میں سراوان اور چاہ بہار شامل ہیں۔

ایران اور ان اضلاع کے درمیان سرحدی علاقے دشوارگزار علاقوں پر مشتمل ہیں۔ منشیات کے بین الاقوامی سمگلرز انھی راستوں کو افغانستان سے منشیات کی سمگلنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ پاکستان اور افغانستان سے جو لوگ غیر قانونی طور پر بیرونی ممالک جاتے ہیں وہ بھی انھی اضلاع کے سرحدی علاقوں سے ایران میں داخل ہوتے ہیں۔

اگرچہ پاکستانی حکام کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی علاقے دشوار گزار ہیں لیکن انور ساجدی اس بات سے بہت زیادہ اتفاق نہیں کرتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ سرحدی علاقوں کی جانب توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے وہاں مسائل ہیں۔ ’اگر دونوں ممالک سرحدی علاقوں کی جانب توجہ دیتے تو نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی۔‘

تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے سرحد پر سکیورٹی کو سخت کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں جن میں اس کے ایک بڑے حصے پر باڑ کی تنصیب بھی شامل ہے۔

پنجگور سمیت ایران سے متصل بلوچستان کے تمام اضلاع کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے۔ ان اضلاع میں سے پنجگور، کیچ اور گوادر بلوچستان کے انتظامی لحاظ سے مکران ڈویژن کا حصہ ہیں۔

یہ تینوں اضلاع بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد سے شورش سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں لیکن یہ کسی مذہبی شدت پسند تنظیم کی وجہ سے نہیں بلکہ علیحدگی پسند تنظیموں کی کارروائیوں کی وجہ سے متاثر ہیں۔

ایران کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ ایران میں شدت پسندی میں ملوث کالعدم تنظیم جیش العدل اور بعض دیگر تنظیموں کے ٹھکانے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ہیں تاہم پاکستانی حکام کی جانب سے ان الزامات کو مسترد کیا جاتا رہا ہے۔

بلوچستان کے مکران ڈویژن میں عسکریت پسند سرگرمیاں، ایران سے کارروائی کے مطالبے

سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں حالات کی خرابی کے بعد سے بلوچستان میں کالعدم عسکریت پسند تنظیموں کی کاروائیوں کے مراکز بلوچستان کے وسطی اور مشرقی علاقے تھے لیکن 2010 کے بعد جنوب میں مکران ڈویژن میں ان تنظیموں کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا۔

بعض سکیورٹی ماہرین کے مطابق پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی بولان، قلات اور سبِی، کوہلو اور ڈیرہ بگٹی سمیت ان سے متصل دیگر علاقوں میں بڑے پیمانے پر آپریشنز کی وجہ سے ان تنظیموں نے اپنی کارروائیوں کا مرکز مکران کو بنایا۔

تاہم بعض دیگر سکیورٹی ماہرین اور پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ چونکہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا مرکز مکران ڈویژن کے نہ صرف ضلع گوادر میں ہے بلکہ اس کو ملک سے ملانے والی شاہراہیں بھی مکران ڈویژن سے ہی نکلیں گی، اسی لیے کالعدم تنظیموں نے ایک منصوبہ بندی کے تحت اپنی کارروائیوں کو مکران ڈویژن منتقل کیا ہے تاکہ سی پیک کے منصوبے کو سبوتاژ کیا جا سکے۔

تاہم بلوچستان میں بعض علیحدگی پسند تنظیموں کے علاوہ قوم پرست جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ سی پیک ایک ’استحصالی منصوبہ‘ ہے اور اس کے ذریعے بلوچستان کے نہ صرف ’وسائل کا استحصال‘ کیا جائے گا بلکہ گوادر میں دوسرے صوبوں سے لوگوں کو منتقل کرکے بلوچوں کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے گا۔

تاہم سرکاری حکام ان الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سی پیک سے بلوچستان کی پسماندگی کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

سرکاری حکام کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ بلوچستان میں بعض قوم پرست حلقے یہاں کے لوگوں کو پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکیں اور اسی لیے سی پیک کے منصوبوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف اس حوالے سے تین قوم پرست رہنماؤں نواب خیربخش مری، نواب اکبر بگٹی اور سردار عطااللہ مینگل کا نام لے کر اُن کو مورد الزام ٹھہراتے تھے۔

سینیئر تجزیہ نگار انور ساجدی مکران ڈویژن میں عسکریت پسند تنظیموں کی مضبوطی کی ایک وجہ بلوچوں کی قیادت میں تبدیلی کو قرار دیتے ہیں جو قبائلی سرداروں سے عام پڑھے لکھے نوجوانوں میں منتقل ہوئی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’پہلے قیادت سرداروں کے ہاتھ میں تھی لیکن اب یہ پڑھے لکھے نوجوانوں کے پاس ہے۔ چونکہ مکران میں نہ صرف تعلیم کی شرح زیادہ ہے بلکہ وہاں کی آبادی بھی زیادہ ہے اس لیے وہاں عسکریت تنظیمیں دوسرے علاقوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہیں۔‘

سنہ 2010 کے بعد گوادر، کیچ اور پنجگور کے اضلاع میں متعدد بڑی کاروائیاں ہوئیں جس کے بعد پاکستانی حکام کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا کہ حملہ آور ایران سے آئے اور کارروائی کے بعد ایران ہی واپس چلے گئے۔

اپریل 2019 میں ضلع گوادر میں کراچی جانے والی بس سے مسلح افراد نے 14 افراد کو اتار کر ہلاک کر دیا۔ ان افراد میں سے اکثریت پاکستانی بحریہ کے اہلکاروں کی تھی۔ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس واقعے کے حوالے سے دفترِ خارجہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ الزام عائد کیا تھا کہ حملہ آور ایران سے آئے تھے اور کارروائی کے بعد واپس ایران گئے۔

اس کے علاوہ جنوری 2023 میں ضلع پنجگور کے علاقے چوگاب، ضلع کیچ میں اپریل 2023 اور جون 2023 کے دوران سنگوان میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں کے حوالے سے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے بھی یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ حملے ایرانی حدود سے کیے گئے۔

ان حملوں کی ذمہ داریاں تسلسل کے ساتھ کالعدم بی ایل ایف اور بی ایل اے کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہیں۔

پاکستانی حکام کی جانب سے ایرانی حکام سے نہ صرف ان حملوں کے حوالے سے احتجاج کیا جاتا رہا بلکہ یہ بھی مطالبہ ہوا کہ ایرانی حکام اپنی حدود میں پناہ لینے والی ان عسکریت پسند تنظیموں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کریں۔

ایران کا صوبہ سیستان و بلوچستان بھی شدت پسندی سے متاثر، مگر نوعیت مختلف

جہاں پاکستان کا صوبہ بلوچستان عسکریت پسندوں کی کارروائیوں سے متاثر ہے وہیں دوسری جانب ایران میں سیستان و بلوچستان بھی شدت پسندی کی کاروائیاں ہوتی رہی ہیں۔

تقریباً 20 سال قبل ایران میں شدت پسندی کی کارروائیوں کی ذمہ داری جنداللہ نامی تنظیم کی جانب سے قبول کی جاتی تھی۔

ایران کی جانب سے ماضی میں یہ الزام عائد کیا جاتا رہا کہ جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی بلوچ بلوچستان میں مقیم تھے اور ایران حکام کی جانب سے ان کی حوالگی کا مطالبہ ہوتا تھا۔

تاہم بعد میں ایرانی حکام نے ایک ہوائی سفر کے دوران ایرانی حدود سے گزرنے والے طیارے کو اتار کر عبدالمالک ریگی کو گرفتار کیا اور انھیں بعد میں پھانسی دی۔

عبدالمالک ریگی کی پھانسی کے بعد سے ایرانی علاقوں میں ہونے والی شدت پسندی کی کارروائیوں کی ذمہ داری کالعدم سنی تنظیم جیش العدل کی جانب سے قبول کی جا رہی ہیں۔

ایران کے بلوچ آبادی والے علاقوں میں کارروائی کرنے والی تنظیمیں مذہبی شدت پسندی کی حامل ہیں جبکہ پاکستان کے بلوچستان میں کارروائیاں کرنے والی تنظیمیں سیکولرازم اور بلوچ قوم پرستی کے علمبردار ہیں۔

’دونوں ممالک کی کاروائیوں سے دونوں اطراف کی بلوچ آبادی متاثر ہو گی‘

بلوچستان کے سابق وزیر داخلہ میرسرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ماضی میں نہ صرف سفارتی سطح پر ایرانی حدود سے پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کی کارروائیوں پر ایران سے سفارتی سطح پر احتجاج کیا جاتا رہا ہے بلکہ ایرانی حکام سے ان کے وہاں ٹھکانوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستان میں جو کارروائیاں ہو رہی ہیں وہ دراصل ’انٹیلیجینس ڈرون وار‘ ہے جس کی قیادت انڈین خفیہ ایجنسی را کر رہی ہے۔ ’یہ جو پراکسیز ہوتی ہیں وہ اسی طرح کی جنگ لڑتی ہیں۔ مختلف علاقوں میں ان کے لیے محفوظ ٹھکانے ڈھونڈے جاتے ہیں، یہ کبھی افغانستان اور کبھی ایران میں ہوتی ہیں۔‘

سابق نگراں وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے پاس تنظیموں کی ایران میں موجودگی کے حوالے سے شواہد موجود ہیں جس کے مطابق بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ ایک حملے میں زخمی ہوئے اور ان کا علاج ایران میں ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسرے ممالک کو شواہد کی فراہمی دفترِ خارجہ کا اختیار ہوتا ہے اور دفترِ خارجہ شواہد کے حوالے سے ڈوزیئر دیتا ہے اور مختلف مواقع پر ایرانی حکام کو وہاں ان تنظیموں کے ٹھکانوں کی موجودگی کے بارے میں ڈوزیئر دیئے جاتے رہے ہیں۔

دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے حدود میں عسکریت پسندوں کے خلاف براہِ راست کاروائیاں کب تک جاری رہیں گے اور ان کے کیا نتائج برآمد ہوں گے وہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن انور ساجدی کا کہنا ہے کہ اس سے دونوں ہمسایہ ممالک کا نقصان ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس کو وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو اس سے یہ لگتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی لڑائی اب بلوچستان بھی پہنچ گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک سب سے زیادہ نقصان کی بات ہے تو وہ تو سرحد کے دونوں اطراف آباد بلوچوں کا ہو گا۔

انھوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ ’اس سے بلوچوں کی معیشت سمیت ہر چیز پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کے اثرات خطے میں تجارتی سمیت دیگر سرگرمیوں پر بھی مرتب ہوں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں