عالمی عدالت انصاف نے رفح سے متعلق جنوبی افریقہ کی درخواست مسترد کردی

ہیگ (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے ایف پی/اے پی) عالمی عدالت برائے انصاف نے جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کی گئی اس درخواست کو رد کر دیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کو غزہ پٹی کے شہر رفح میں حماس جنگجوؤں کے خلاف عسکری کارروائی سے روکا جائے۔

عالمی عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس معاملے پر عدالت کا سابقہ حکم بدستور موجود ہے اور اس کے لیے علیحدہ سے حکم جاری نہیں کیا جا سکتا۔

جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالت سے کہا گیا تھا کہ وہ رفح شہر میں اسرائیلی عسکری کارروائی کے قانونی جواز پر غور کرے کیوں کہ اس شہر میں لاکھوں مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔ عدالتی بیان میں کہا گیا ہے کہ چھبیس جنوری کو دیا گیا فیصلہ پوری غزہ پٹی کے لیے ہے اور اس میں رفح شہر بھی شامل ہے۔

واضح رہے کہ اپنے سابقہ فیصلے میں عدالت نے اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ غزہ میں عام شہریوں کے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرے۔ اسرائیل کو غزہ پٹی میں انسانی بنیادوں پر امداد کو یقینی بنانے کا بھی کہا گیا تھا۔

سیز فائر میں پیش رفت نہ ہونے کا ذمہ دار اسرائیل ہے، حماس

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے غزہ میں سیزفائر کے لیے کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی ہے۔ ہفتے کے روز اپنے بیان میں ہنیہ کا کہنا تھا کہ حماس سیزفائر کا فقط ایسا معاہدہ قبول کرے گی، جس میں جارحیت کا مکمل خاتمہ، غزہ سے تمام اسرائیلی افواج کی واپسی اور غزہ کی ناکہ بندی کا خاتمہ شامل ہو گا۔

یہ بات اہم ہے کہ مصری اور قطری مذاکرات کار اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح سے غزہ میں سیزفائر کا معاہدہ طے پائے۔ اسی تناظر میں قاہرہ میں مصری، قطری، اسرائیلی اور امریکی اعلیٰ عہدیداروں کی ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں، جب کہحماس کے وفد کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ تاہم اب تک اس سلسلے میں کوئی واضح پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔

اسرائیل کے لیے مزید امریکی ہتھیار

امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی ایک تازہ رپورٹ میں میں بتایا گہا ہے کہ اسرائیل کو امریکہ بم اور دیگر ہتھیار فراہم کر رہا ہے، تاکہ وہ انہیں اپنے عسکری ذخیرے کا حصہ بنا سکے۔

اس تازہ امریکی منصوبے کے مطابق اسرائیل کو ایم کے 82 اور کے ایم یو 572 جوائنٹ اٹیک میونیشن کے ساتھ ساتھ انتہائی درستی سے ہدف کو نشانہ بنانے والے بم اور ایف ایم یو 138 بم فیوزز بھی شامل ہیں۔ اخباری رپورٹ کے مطابق اسرائیل کو مہیا کیے جانے والے ان ہتھیاروں کی قیمت ‘کئی ملین ڈالر‘ ہے۔

وال اسڑیٹ نے واشنگٹن انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا نام ظاہر کیے بغیر کہا ہے کہ ہتھیاروں کی اس ڈیلیوری پر اس وقت امریکہ انتظامیہ داخلی طور پر غور کر رہی ہے، جب کہ کانگریشنل کمیٹی سے منظوری سے قبل یہ تفصیلات بدل بھی سکتی ہیں۔

امریکہ محمکہ خارجہ، اسرائیلی دفاعی فورسز اور اسرائیلی وزارت دفاع نے اس معاملے پر خبر رساں ادارے روئٹرز کی جانب سے تبصرے کی درخواست پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

امریکہ انتظامیہ پر تنقید

امریکی صدر جوبائیڈن کی کوشش ہے کہ غزہ جنگ میں وقفہ پیدا ہو مگر اسرائیل کے لیے مسلسل امریکی ساختہ ہتھیاروں کی ترسیل پر جوبائیڈن انتظامیہ پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔ ناقدین کے مطابق اسرائیل کی جانب سے یہ بم غزہ میں استعمال کیے جا رہے ہیں، جس میں بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک اور زخمی ہو رہے ہیں۔

واضح رہے کہ اسرائیل پر 7 اکتوبر کو حماس کے دہشت گردانہ حملے میں 1140 ہلاک ہو گئے تھے، جب کہ یہ عسکریت پسند قریب 250 عام شہریوں کو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے تھے۔ اس کے بعد سے غزہ پٹی میں حماس کے خلاف جاری اسرائیلی عسکری کارروائیوں میں 28 ہزار سات سو 75 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد عام شہریوں کی ہے۔

حماس کے عسکری ڈویژنز کی تباہی

اسرائیلی وزیردفاع نے کہا ہے کہ فوج نے غزہ میں حماس کے عسکری ڈویژنز کا زیادہ تر حصہ تباہ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”حماس کی 24 علاقائی بٹالینز تھیں، جن میں سے ہم نے 18 کو ختم کر دیا ہے۔‘‘ اسرائیلی فوج کے مطابق حماس کی ایسی ہر بٹالین میں تقریباﹰ ایک ہزار ارکان ہوتے ہوتے ہیں۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ رفح میں اس وقت بھی حماس کی چار بٹالینز فعال ہیں۔ اسرائیلی فوج اس وقت رفح میں حماس کے خلاف ایک بڑی عسکری پیش قدمی کی تیاری میں مصروف ہے۔

اسرائیلی وزیردفاع کے مطابق، ”جب جنگ ختم ہو گی، تو غزہ میں حماس کی کوئی عسکری قوت باقی نہیں ہو گی۔‘‘

رفح میں اسرائیلی کارروائی کے منصوبے پر تنقید

مصری سرحد کے قریب واقع شہر رفح میںاسرائیلی عسکری کارروائی کے منصوبے پر عالمی برادری کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔ غزہ کے شمال سے شروع کی جانے والی اسرائیلی عسکری کارروائیوں کی وجہ سے لاکھوں افراد اس وقت رفح میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ عالمی امدادی اداروں کے مطابق اگر اس شہر پر چڑھائی کی گئی تو بڑی تعداد میں عام شہری متاثر ہوں گے۔

یہ بات اہم ہے کہ جنگ سے قبل رفح کی آبادی تین لاکھ کے قریب تھی، تاہم اس وقت یہاں تیرہ لاکھ فلسطینی موجود ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں