عدلیہ کے خلاف منظم مہم افسوسناک ہے، سپریم کورٹ

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) سپریم کورٹ نے جمعرات کو ایک اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں اس نے عدلیہ کے خلاف ایک ’منظم مہم‘ پر افسوس ظاہر کیا ہے۔

اس میں لکھا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ سپریم کورٹ نے دوسری آئینی ترمیم یعنی مسلمان کی تعریف سے انحراف کیا یا مذہب کے خلاف جرائم سے متعلق تعزیرات پاکستان کی دفعات ختم کرنے کا کہا ہے۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ نے کسی کو نظرثانی سے نہ پہلے روکا نہ اب روکیں گے۔ ’تنقید کے نام پر، یا اس کی آڑ میں عدلیہ یا ججوں کے خلاف منظم مہم افسوسناک ہے۔۔۔ اس سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس ستون کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس پر آئین نے لوگوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری ڈالی ہے۔‘

سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا تھا؟

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چھ فروری کو ایک درخواست گزار کی جانب سے اپنے خلاف فردِ جرم سے بعض الزامات حذف کروانے اور ضمانت کی درخواست پر فیصلہ دیا تھا کہ ’آئین نے قرار دیا ہے کہ کسی شخص پر ایسے کام کے لیے فردِ جرم عائد نہیں کیا جا سکتا جو اس وقت جرم نہیں تھا، جب اس کا ارتکاب کیا گیا۔‘ اس حوالے سے فیصلے میں آئین کی دفعہ 12 (1) کا حوالہ دیا گیا ہے۔

فیصلے میں بتایا گیا تھا کہ ’درخواست گزار پر چھ دسمبر 2022 کو ضلع چنیوٹ میں درج ایف آئی آر کے مطابق تین الزامات لگائے گئے تھے جو پنجاب قرآن شریف قانون 2011، تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 سی اور دفعہ 295 بی شامل کے تحت لگائے گئے تھے۔‘

فیصلے کے مطابق ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ ’ملزم ممنوعہ کتاب ’تفسیرِ صغیر‘ تقسیم کر رہا تھا۔ ان کے وکیل کے مطابق کسی بھی ممنوعہ کتاب کی تقسیم یا اشاعت کو پنجاب قرآن شریف (ترمیم) قانون کے تحت سنہ 2021 میں جرم بنایا گیا تھا جبکہ ایف آی آر میں الزام ہے کہ درخواست گزار نے اس کا ارتکاب 2019 میں کیا تھا۔‘

فیصلے میں سپریم کورٹ کی جانب سے وکیل کے اس دعوے کی تصدیق کی گئی ہے کہ مذکورہ جرم قانون میں 2021 میں شامل کیا گیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چونکہ سنہ 2019 میں ممنوعہ کتاب کی تقسیم جرم نہیں تھی اس لیے درخواست گزار پر یہ فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی۔

فیصلے میں درخواست پر ایف آئی آر میں عائد کی گئی دیگر دفعات 298 سی اور 295 بی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ’وکیل کا کہنا تھا کہ نہ تو ایف آئی آر میں اور نہ ہی پولیس کی تفتیش میں جمع کی گئی پولیس رپورٹ میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ درخواست گزار نے کسی ایسے فعل کا ارتکاب کیا ہے جس سے مذکورہ جرائم تشکیل پاتے ہوں۔‘

’وکیل کی جانب سے ایف آئی آر پڑھا، لیکن اس میں ایسا کچھ ذکر نہیں تھا جس سے دفعات 295 بی اور 298 سی کے تحت جرائم تشکیل پاتے اور چالان بھی اس بارے میں خاموش ہے۔‘

فیصلے کے مطابق ’اس بنا پر دفعات 295 بی اور 298 سی ایف آئی آر سے نکال دی جاتی ہیں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں