اقلیتی ملزم کی رہائی: مذہبی طبقہ سپریم کورٹ سے ناراض کیوں؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) سپریم کورٹ آف پاکستان کے مطابق الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر عدالتی فیصلے کی غلط رپورٹنگ سے غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ بعض مذہبی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ عدالتی فیصلے میں احمدیوں کو ملک میں تبلیغی سرگرمیوں کی اجازت دے گئی ہے۔

پاکستان میں سپریم کورٹ کی طرف سے حال ہی میں ضمانت کے ایک مقدمے میں دیا گیا فیصلہ اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نام سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈز میں گردش کر رہے ہیں۔ اس فیصلے کے تحت جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کوتوہین مذہب کے مقدمے میں رہائی ملنے کے ساتھ ساتھ اس پر عائد مجرمانہ نوعیت کے الزامات ختم کر دیے گئے تھے۔

تاہم اس فیصلے کے آنے کے تقریباﹰ دو ہفتے بعد بعض مذہبی طبقات اس پر شدید تحفظات اور برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ دوسری جانب بعض افراد کے نزدیک حقائق مسخ کر کے چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف سیاسی وجوہات کی بنیاد پر مہم چلائی جا رہی ہے جو ایک خطرناک رجحان ہے۔

جمعرات کو سپریم کورٹ کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔

اس بیان کے مطابق، ”ایسا تاثر دیا جا رہا ہے جیسے سپریم کورٹ نے دوسری آئینی ترمیم (‘مسلمان‘ کی تعریف) سے انحراف کیا ہے۔ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ‘مذہب کے خلاف جرائم‘ کے متعلق مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ختم کرنے کے لیے کہا ہے۔‘‘

بیان کے مطابق یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ حالیہ کیس میں سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا تھا کہ مقدمے کی ایف آئی آر میں مذکور الزامات کو جوں کا توں درست تسلیم بھی کیا جائے تو بھی ملزم پر لگائی گئی دفعات کا نہیں بلکہ فوجداری ترمیمی ایکٹ 1932 کی دفعہ پانچ کا اطلاق ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ کے ترجمان کے جاری کردہ اس بیان کے مطابق بیان میں مزید کہا گیا ہے، ”عدالتی فیصلوں پر مناسب اسلوب میں تنقید بھی کی جا سکتی ہے لیکن نظرثانی کا آئینی راستہ اختیار کیے بغیر تنقید کے نام پر، یا اس کی آڑ میں، عدلیہ یا ججوں کے خلاف منظم مہم افسوسناک ہے۔‘‘

مقدمے کا پس منظر

سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود مقدمے کی تفصیلات کے مطابق مبارک احمد ثانی نامی شخص کے خلاف چھ دسمبر 2022ء کو چناب نگر پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی گئی، جس کے مطابق ملزم نے ایک احمدی مصنف کی تحریر کردہ قران کی تشریح پر مبنی کتاب ‘تفسیرِ صغیر‘ تقسیم کی، جو قرآن اشاعت ایکٹ 2011 کی دفعہ سات اور نو کے تحت قابل سزا جرم ہے۔

ملزم پر دوسرا الزام یہ تھا کہ اس نے خود کو مسلمان ظاہر کیا، جو مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 سی کے تحت جرم ہے۔ ملزم کے خلاف تیسرا اور آخری الزام یہ تھا کہ وہ توہین قرآن کا مرتکب ہوا، جو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 بی کے تحت جرم ہے۔

اس ایف آئی آر کے تحت ملزم کو سات جنوری 2023 کو گرفتارکیا گیا اور ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت اور لاہور ہائی کورٹ سے ملزم کی ضمانت خارج کردی گئی جس کے بعد یہ کیس سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے سامنے آیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کیا ہے؟

چھ فروری کو چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے مبارک احمد ثانی نامی اس ملزم کی درخواست ضمانت منظور کر لی اور ان پر عائد الزامات سے انہیں بری قرار دے دیا۔

فوجداری قوانین کے ماہر اور سپریم کورٹ کے وکیل الیاس باجوہ نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ”ملزم پر الزام یہ تھا کہ اس نے 2019 میں تفسیر صغیر تقسیم کی جبکہ پنجاب کے اشاعت قرآن قانون ایکٹ کے تحت 2021 میں اس کتاب کی اشاعت و تقسیم کو جرم قرار دیا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس وقت ملزم سے جرم سرزد ہوا تب یہ قانون تھا ہی نہیں۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 12 واضح ہے کہ کسی بھی شخص کو کسی ایسے جرم کی سزا نہیں دی جا سکتی، جسے کرتے وقت وہ کام کسی قانون کے تحت جرم کی تعریف میں نہ آتا ہو۔”

اس بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے الیاس باجوہ کا مزید کہنا تھا، ”سپریم کورٹ نے ملزم کے خلاف دیگر دو الزامات یعنی توہین قرآن اور خود کو مسلمان ظاہر کرنے کے حوالے سے فیصلے میں کہا کہ ملزم کے خلاف نہ تو ایف آئی آر اور نہ ہی پولیس کے چالان میں ان الزامات کے حوالے سے کوئی بات ہے۔ اس وجہ سے عدالت نے دونوں دفعات فردِ جرم سے حذف کرنے کا فیصلہ کیا۔‘‘ انہوں نے کہا، ”ملزم پر ‘تفسیر صغیر‘ کی تقسیم کرنے کا جرم اگر بنتا بھی تھا تو اس پر زیادہ سے زیادہ چھ ماہ قید کی سزا دی جاسکتی ہے، جو وہ پہلے ہی بھگت چکا ہے۔ ”

خیال رہے تفسیرِ صغیر جماعت احمدیہ کی سرکردہ رہنما مرزا بشیرالدین کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے قرآن کی تشریح کی ہے۔

’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں کی جا سکتی‘

سپریم کورٹ نے فیصلے میں قرآن کی سورة البقرة کی آیت نمبر 256 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا،”دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں کی جاسکتی۔ قرآن کے اس اصول کو آئین میں ایک بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ آئین کی دفعہ 20 کی شق اے طے کرتی ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اسے بیان کرنے کا حق ہوگا۔ دفعہ 20 کی شق بی کہتی ہے کہ کسی مذہبی گروہ کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، ان کی دیکھ بھال اور ان کے انتظام کا حق ہوگا۔ ”

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ عقیدے کی آزادی اسلام کے بنیادی تصورات میں سے ہے لیکن افسوس ہے کہ دینی امور میں جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں اور قرآنی فریضہ بھلا دیا جاتا ہے۔ آئین کی دفعہ 22 بھی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ کسی مذہبی گروہ یا فرقے کو کسی ایسے تعلیمی ادارے میں، جس کا انتظام کلی طور پر اس گروہ یا فرقے کے پاس ہو، اپنے فرقے سے منسلک افراد کو مذہبی تعلیم دینے سے نہیں روکا جائے گا۔ آئین میں درج ان بنیادی حقوق سے انحراف یا گریز نہیں کیا جاسکتا۔

احمدی برادری کا خیر مقدم، مذہبی جماعتوں کا شدید ردعمل

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کے ترجمان عامر محمود کا کہنا تھا کہ ہم اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں، ”سپریم کورٹ نے مذہبی آزادیوں کے ضمن میں آئین کے ارٹیکل بیس کی وضاحت کی ہے۔ اس سے ایک بے گناہ شخص کی رہائی ممکن ہو سکے گی۔ یہ بہت اچھا فیصلہ ہے۔”

جبکہ مذہبی جماعتیں شدید ردعمل کا اظہار کر رہی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے، ”جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قادیانیوں کو مذہب کی تبلیغ کی اجازت دی ہے جو کہ مذہب، قانون اور آئین سے متصادم ہے۔”ان کے مطابق یہ فیصلہ مغربی خواہشات کے تابع کیا گیا ہے جس میں قرآن کی جن آیات کا حوالہ دیا ہے وہ اس فیصلے سے مطابقت نہیں رکھتی۔

انہوں نے علماء سے جمعے کے خطبوں میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف آواز بلند کرنے کی اپیل کی ہے۔ اسی مذہبی اور سیاسی جماعت سے وابستہ مرکزی رہنما عبدالغفوری حیدری نے عدالتی فیصلے کو ‘جاہلانہ اور احمقانہ‘ قرار دیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر فرید احمد پراچہ نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ”یہ کروڑوں پاکستانیوں اور آئین پاکستان کی توہین ہے جسے مذہبی جماعتیں بھولنے نہیں دیں گی۔ یہ قادیانیوں کو کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہے جس کی ہر مسلمان کو مذمت کرنی چاہیے۔”

’فیصلوں سے اختلاف ضرور کریں مگر نیتوں پر حملے نہیں‘

قائد اعظم یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے سربراہ ڈاکٹر عزیز الرحمان ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ”298 سی کو ایف آئی آر سے ختم کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ کو نہیں کرنا چاہیے تھا، یہ معاملہ ٹرائل کورٹ میں جانا چاہیے تھا۔ لیکن چیف جسٹس کی نیت پر شک کرنا اور فیصلے کو قادیانیت کی تبلیغ کی اجازت یا سازش قرار دینا بالکل لغو اور فضول بات ہے۔ ہمارے مذہبی طبقات کو سیکھنا ہو گا کہ فیصلوں سے اختلاف ضرور کریں مگر نیتوں پر حملے نہیں۔ جسٹس قاضی عیسی نے حالیہ برسوں میں قرآن و سنت اور شرعی حوالہ جات کو عدالتی فیصلوں میں جس انداز میں ذکر کیا وہ قابل تحسین ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں گھٹیا انداز میں کمپین کسی طور پر مناسب بات نہیں ہے۔”

علامہ اقبال یونیورسٹی میں شعبہ علوم اسلامی سے وابستہ محقق ڈاکٹر طاہر اسلام عسکری ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”اب ایسے معاملات بہت حساس ہو چکے۔ اس لیے بہتر ہے کہ کسی نئے فورم کے ذریعے یا پہلے سے موجود کسی فورم کے تحت ایسے مقدمات کے فیصلوں سے پہلے علماء کی رائے لے جائے یا انہیں اعتماد میں لے لیا جائے تاکہ گمراہ کرنے والے عناصر مذہب کا غلط استعمال نہ کریں۔”

وہ مزید کہتے ہیں، ”سپریم کورٹ کو فیصلے اردو میں لکھنے چاہییں۔ لوگ ایک دوسرے سے انگریزی میں لکھا ہوا فیصلہ شئیر کر کے پوچھ رہے تھے کہ اس میں کیا ہے۔ اگر لوگ خود فیصلہ پڑھ سکے تو بہت سی غلط فہمیوں سے بچا جا سکتا ہے۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں