زہر اور قیدِ تنہائی سے اعصابی حملوں تک: روسی صدر پوتن کے سیاسی مخالفین کو کتنی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے؟

لندن + ماسکو (ڈیلی اردو/بی بی سی) روس میں اپوزیشن رہنما الیکسی ناوالنی کی موت کے بعد، سلاخوں کے پیچھے موجود ایک اور سیاسی قیدی روس میں تبدیلی کی امید کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

حزب اختلاف کے کارکن ولادیمیر کارا مورزا نے ایک بار مجھے روس کی ایک جیل کے سیل سے خط لکھا تھا جس میں انھوں نے تحریر کیا ’آزادی کی قیمت بہت بڑی ہے۔‘

درحقیت وہ اپنے سیاسی سرپرست بورس نیمتسوف کا حوالہ دے رہے تھے جنھیں 2015 میں ماسکو میں قتل کر دیا گیا تھا۔

اب روسی صدر ولادیمیر پوتن کے سب سے بڑے سیاسی حریف الیکسی ناوالنی بھی جیل میں وفات پا چکے ہیں۔

آج کے روس میں سیاسی مخالفت کی قیمت بہت زیادہ ہے اور تبدیلی کی امید اتنی ہی مبہم۔

انتقامی کارروائی کا خوف اتنا ہے کہ ناوالنی کی موت کے بعد روس بھر میں کوئی مشتعل مظاہرے نہیں ہوئے۔ اُن کی یاد میں پھول رکھنے کی تقریب ہوئی جس میں شامل درجنوں افراد کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔

لیکن اس صورتحال کے باوجود کارا مورزا اپنی لڑائی اور اپنی امید کو ترک کرنے سے انکاری ہیں۔

ناوالنی کی موت کے بعد رواں ہفتے انھوں نے اپوزیشن کے حامیوں پر زور دیا کہ وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ’مزید محنت کریں‘، وہ مقصدر جس کے لیے ناوالنی اور نیمتسوف نے جدوجہد کی تھی اور وہ مقصد ہے ’ایک آزاد ملک میں رہنے کا موقع۔‘

انھوں نے اس راستے کا انتخاب بہت پہلے کر لیا تھا۔ سنہ 2022 میں حراست میں لیے جانے کے فوراً بعد انھوں نے مجھے جیل سے خط لکھ کر بتایا تھا کہ ’یہاں بولنے کی قیمت بہت زیادہ ہے۔‘

’مگر خاموشی کی قیمت ناقابلِ قبول ہے۔‘

دو مختلف آدمی جن کا مقصد ایک تھا

47 سالہ الیکسی ناوالنی اور 42 سالہ ولادیمیر کارا مورزا، ایک دوسرے سے بہت مختلف شخصیات ہیں۔

ناوالنی سوشل میڈیا پر کافی فعال اور مشہور شخصیت تھے۔ ایک کرشماتی مقرر، جن میں کسی قدرتی سیاسی رہنما جیسی انا پرستی تھی۔

دوسری جانب کارا مورزا نرم انداز میں گفتگو کرنے والے دانشور ہیں۔ وہ ایسے انسان ہیں جنھیں بند کمرے میں بیٹھ کر بات چیت کرنا پسند ہے، نہ کہ ہجوم کے سامنے تقریر کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی روس میں زیادہ لوگ انھیں نہیں جانتے ہیں۔

لیکن ان دو انتہائی مختلف شخصیات کو ایک یقین تھا کہ پوتن کا اقتدار ہمیشہ نہیں رہے گا اور یہ کہ سیاسی آزادی ممکن ہے۔

جب ناوالنی اعلیٰ ترین سطح پر ہونے والی بدعنوانی کی ویڈیو منظر عام پر لانے میں مگن تھے تو کارا مورزا مغربی حکومتوں سے حکام کے اثاثوں اور بیرون ملک جمع کی گئی رقم کو نشانہ بنانے اور اُن پر پابندیوں کے لیے لابنگ کر رہے تھے۔

دونوں نے پوتن کے خلاف اپنی اپنی مہم جوئی کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔

سنہ 2015 میں ناوالنی پر پہلی بار اعصاب کو ناکارہ بنانے کی غرض سے پہلا حملہ ہوا تھا مگر اس واقعے سے پانچ برس قبل یعنی سنہ 2010 میں کارا مورزا ایک دن اچانک گِر گئے اور پھر کوما میں چلے گئے۔

دو سال بعد کارا مورزا کے ساتھ ایسا دوبارہ ہوا۔ امریکہ میں ہونے والے ٹیسٹوں میں اس بات کی تصدیق ہوئی کہ انھیں زہر دیا گیا تھا۔

لیکن اس کے باوجود انھوں نے کبھی بھی اپنے دل کی بات کہنا نہیں چھوڑی، جس میں پوتن کے یوکرین پر حملے کی مذمت بھی شامل تھی۔

اور بلآخر سنہ 2023 میں کارا مورزا کو غداری کے الزام میں 25 سال قید کی سزا سنائی گئی، حالانکہ ان کے مقدمے کی چارج شیٹ میں اپوزیشن کی پرامن سرگرمیوں کے علاوہ کوئی الزام درج نہیں تھا۔

دونوں شخصیات کے لیے ضمیر کا معاملہ

جب الیکسی ناوالنی نے سنہ 2015 میں اپنے اوپر ہونے والے بڑے حملے کے باوجود سنہ 2021 میں روس واپس جانے کا انتخاب کیا تو کچھ لوگوں نے انھیں ’بے وقوف‘ قرار دیا۔

حزب اختلاف کی شخصیات جنھوں نے قید کے ڈر سے جلاوطنی کا انتخاب کیا، اُن کا کہنا ہے کہ تبدیلی کی امید کے بغیر قربانی بیکار ہے۔

مگر ناوالنی کچھ اور سوچ رہے تھے۔ انھوں نے 16 فروری کو اپنی موت سے کچھ دیر قبل لکھا تھا کہ ’اگر آپ کے نظریات اہم ہیں تو پھر آپ کو ان کے اٹھ کھڑا ہونا ہو گا اور ضروری ہو تو قربانیاں دینے کے لیے بھی تیار رہنا ہو گا۔‘

ناوالنی کی طرح ولادیمیر کارا مورزا کی بیوی اور بچے ہیں اور ان کے پاس امریکہ میں رہائش اور برطانوی پاسپورٹ بھی ہے لیکن انھوں نے روس واپس جانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔

کارا مورزا نے 2022 میں، جب وہ جیل میں تھے، مجھے لکھا کہ ’اگر میں خود محفوظ کہیں اور بیٹھا ہوں تو مجھے نہیں لگتا تھا کہ مجھے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے اور دوسرے کو احتجاج کے لیے کہنے کا کوئی حق حاصل ہے۔‘

دونوں شخصیات کے لیے یہ ضمیر کا معاملہ تھا۔

اب ایک مر چکا ہے اور دوسرا اپنے خاندان سے بہت دور پابندِ سلاسل ہے۔ ایسی قید جس میں اسے چھ ماہ میں صرف ایک فون کال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

ان کی اہلیہ ایوجینیا کارا مورزا بتاتی ہیں کہ ’میں بچوں کو زیادہ وقت ان کے والد سے بات کرنے دینا چاہتی تھی، اس لیے میں نے خود اُن سے بات نہیں کی۔‘

اُن کی اہلیہ نے اپنے تینوں بچوں کو پانچ پانچ منٹ بات کرنے کی اجازت دی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’میں وہاں ٹائمر لے کر کھڑی تھی۔‘

مضبوط، باہمت عورتیں

رواں ہفتے ناوالنی کی بیوہ نے ایک ویڈیو بیان ریکارڈ کیا جس میں انھوں نے اپنے اتحادیوں پر زور دیا کہ وہ ہار نہ مانیں۔

یولیا نوالنایا نے اپنے شوہر کے کام اور جدوجہد کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ ’میں ایک آزاد روس میں رہنا چاہتی ہوں، میں ایک آزاد روس چاہتی ہوں۔‘

ایوجینیا کارا مورزا اُن کی بہادری سے دنگ رہ گئیں۔ وہ کہتی ہیں ’وہ مشکل ترین حالات کا سامنا کر رہی ہیں۔ مگر انھوں نے اپنا سر اونچا رکھا، وہ بہت باہمت خاتون ہیں۔‘

لیکن کارا مورزا کی اہلیہ نے خود بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

وہ دنیا کا سفر کر رہی ہیں، اپنے شوہر اور دیگر سیاسی قیدیوں کی مدد کے لیے مغربی حکام سے لابنگ کر رہی ہیں اور یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کی مذمت کر رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ حملہ پوتن کی ’قاتلانہ کارروائیوں‘ کا ثبوت ہے۔

جب ہم نے ایوجینیا سے بات کی تو اُس وقت وہ اپنے بچوں کو ملنے کے لیے واپس امریکہ جانے والی تھیں۔ اس کے بعد وہ برطانیہ کے وزرا سے مطالبہ کرنے کے لیے لندن جا رہی تھیں کہ وہ ان کے شوہر کی رہائی کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں کوینکہ وہ روسی نژاد برطانوی شہری ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’میں چاہتی ہوں کہ وہ اسے باہر نکالنے کے لیے اور زور لگائیں اور مناسب طبی امداد کا مطالبہ کریں۔‘

’لیکن ایک حکومت کے لیے دوسرے ملک کی جیل میں اپنے شہریوں کا خیال رکھنا اِن دنوں ایک مشکل کام ہے۔‘

جیل میں ظلم و ستم

جیل میں کارا مورزا پر ظلم و ستم جاری ہے، ویسا ہی جیسا ناوالنی کے ساتھ ہوا تھا۔

ان کو مہینوں سے قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور کسی بھی ذاتی سامان کی اجازت نہیں دی گئی، یہاں تک کہ اپنے بچوں کی تصاویر بھی نہیں۔

جنوری میں انھیں سخت حالات کے ساتھ ایک نئی جیل میں منتقل کر دیا گیا، یہاں تک کہ انھیں ان کی کتابوں سے بھی محروم کر دیا گیا۔

زہر دیے جانے کے بعد سے اُن کی صحت خراب ہو رہی ہے۔ ناوالنی کی موت کے بعد سے کارا مورزا کی رہائی کے لیے دباؤ بھی بڑھ گیا ہے۔

ایوجینیا کارا مورزا نے مجھے بتایا ’اعصاب کو ناکارہ بنانے کی غرض سے کیے گئے حملے سے ہونے والا نقصان اب ان کے جسم کی دائیں جانب پھیل رہا ہے۔ یہ ایک سنگین حالت ہے جو فالج کا باعث بن سکتی ہے۔‘

اس ہفتے انھیں جیل سے ویڈیو لنک پر اپنے شوہر کو دیکھنا نصیب ہوا۔ وہ تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے خود کو زہر دینے کا مقدمہ کھلوانے کی کوشش کر رہے تھے۔

کارا مورزا کالے رنگ کے ڈھیلے ڈھالے جیل کے لباس میں تھے لیکن اُن کا عزم پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط نظر آیا اور وہ روسیوں سے مایوس نہ ہونے کی تاکید کرتے نظر آئے۔

انھوں نے عدالت میں آئے چند حامیوں اور نامہ نگاروں سے خطاب کیا اور کہا کہ ’ہمیں مایوس ہونے کا حق نہیں‘ اور اصرار کیا کہ روس آزاد ہو گا۔

’مستقبل کو کوئی نہیں روک سکتا۔‘

مگر کیسا مستقبل؟

ایوجینیا نے عدالت میں ریکارڈ کیے گئے اس ویڈیو کلپ کو ’ہزار بار‘ دیکھا۔ وہ کہتی ہیں ’مجھے لگتا ہے کہ وہ بالکل صحیح اور ایک عظیم کام کر رہا ہے۔‘

’لوگ شکستہ دل ہیں اور محرومی کا احساس لیے ہوئے ہیں اور ایسے میں ان لوگوں کی طرف سے حوصلہ افزا الفاظ جنھوں نے دباؤ اور دھمکیوں کے سامنے ہار ماننے سے انکار کیا، بہت اہم ہیں۔‘

’مجھے اس جہنم کے باوجود، اپنے نظریات پر قائم رہنے پر ولادیمیر پر بہت فخر ہے۔‘

بے شمار کارکنوں کی قید اور جلاوطنی میں ہونے کے باوجود ایوجینیا مستقبل کے بارے میں اپنے شوہر کی طرح پُرامید ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اہم یہ ہے کہ ہم انسانیت سے جڑے رہیں اور کوشش کرنا نہ چھوڑیں اور ہار نہ مانیں۔‘

وہ یو ایس ایس آر کے خاتمے اور پھر بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جس نے ان کے شوہر کو ہمیشہ متاثر کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے کچھ بھی نہیں ہو رہا تھا پھر 1980 کی دہائی کے آخر اور 1990 کے اوائل میں ایکشن لینے کا موقع ملا اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔‘

’جب حکومت میں دراڑیں دکھائی دیں، ہمیں اس لمحے کے لیے تیار رہنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں یہ موقع ملے گا۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں