بھارتی ریاست اتر پردیش میں مدارس پر پابندی عائد

نئی دہلی (ڈیلی اردو/رائٹرز) بھارت کی ایک عدالت نے ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں مدارس پر پابندی عائد کردی۔

غیر خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی خبرکے مطابق یہ ایک ایسا اقدام ہے جو مسلمانوں کو عام انتخابات سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت سے مزید دور کرسکتا ہے۔

اس عدالتی فیصلے نے اتر پردیش (یو پی) میں مدارس سے متعلق 2004 کے قانون کو ختم کر دیا۔

فیصلے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ قانون بھارت کے آئینی سیکولرازم کے خلاف ہے، اس میں حکم دیا گیا ہے کہ طلبہ کو روایتی اسکولوں میں منتقل کیا جائے۔

24 کروڑ آبادی والی ریاست اتر پردیش جہاں پانچواں حصہ مسلمان آبادی پر مشتمل ہے، وہاں کے مدرسہ تعلیم بورڈ کے سربراہ افتخار احمد جاوید نے فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم سے 25 ہزار مدارس میں پڑھنے والے 27 لاکھ طلبہ اور وہاں پڑھانے والے 10 ہزار اساتذہ متاثر ہوں گے۔

وکیل انشومن سنگھ راٹھور کی اپیل پر فیصلہ تحریر کرتے ہوئے جج سبھاش ودیارتھی اور وویک چوہدری نے کہا کہ ریاستی حکومت یہ بھی یقینی بنائے گی کہ 6 سے 14 سال کی عمر کےتمام بچوں کو تسلیم شدہ اداروں میں داخل کرایا گیا ہے۔

رائٹرز اپیل کرنے والے وکیل انشومن سنگھ راٹھور سے رابطہ نہیں کرسکا اور نہ اس بات کا تعین کرسکا کہ وہ کسی سیاسی گروپ سے وابستہ ہیں یا نہیں۔

بھارت میں اپریل اور جون کے درمیان عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس میں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جیت کی توقع کی جا رہی ہے۔

مسلمان اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ بی جے پی کے کچھ ارکان اور اس سے وابستہ افراد پر اسلام مخالف نفرت انگیز تقاریر اور بلا قانونی جواز خود ساختہ محافظ بن کر قانون کے نفاذ کو فروغ دینے اور مسلمانوں کی ملکیتی جائیدادوں کو منہدم کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔

دوسری جانب نریندر مودی بھارت میں مذہبی امتیازی سلوک سے متعلق الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

ریاستی حکومت چلانے والی بی جے پی اتر پردیش کے ترجمان راکیش ترپاٹھی نے کہا کہ ان کی جماعت مدارس کے خلاف نہیں ہے، انہوں نے مسلم طلبہ کی تعلیم کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم کسی مدرسے کے خلاف نہیں لیکن ہم امتیازی طریقہ کار کے خلاف ہیں اور ہم غیر قانونی فنڈنگ کے خلاف ہیں اور حکومت عدالتی حکمنامے کا جائزہ لینے کے بعد مزید کارروائی کا فیصلہ کرے گی۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے دفتر نے عدالتی فیصلے پر رد عمل جاننے کے لیے کی گئی ای میل کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔

’میں خوفزہ ہوں‘

مقدمے کی ایک فریق وفاقی حکومت کی طرف سے دلائل دیتے ہوئےسدھانشو چوہان نے عدالت کو بتایا کہ ’مذہبی تعلیم اور کسی ایک مذہب کی مذہبی ہدایات کو اسکول کی تعلیم میں شامل نہیں کیا جا سکتا اور ریاستی حکومت کے پاس مذہبی تعلیم کی اجازت دینے والا بورڈ بنانے کا کوئی اختیار نہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت مارچ 2022 میں روکی گئی وفاقی پالیسی کو بحال کرنے کا منصوبہ نہیں بنا رہی تھی، متعطل پالیسی کے تحت مدارس کو ریاضی اور سائنس جیسے مضامین پڑھانے کے لیے فنڈز فراہم کیے جارہے تھے۔

واضح رہے کہ رواں برس جنوری میں بھارتی حکومت نے ایک اسکیم کا خاتمہ کرتے ہوئے اترپردیش کے مدارس میں ریاضی اور سائنس جیسے مضامین پڑھانے والے اساتذہ کو ادائیگیاں روک دی تھیں جس سے 21 ہزار اساتذہ متاثر ہوئے تھے۔

بی جے پی اقلیتی ونگ کے قومی سیکریٹری اور مدرسہ بورڈ کے اہلکار افتخار احمد جاوید نے کہا کہ بطور مسلمان وہ اکثر اپنی پارٹی اور اپنی برادری کے افراد کی ترجیحات کے درمیان پھنس جاتے ہیں، انہوں نے کہا کہ جمعہ کے روز رمضان کے مقدس مہینے میں سامنے آنے والے اس حکم کے بعد سے انہیں مسلمان ساتھیوں کی طرف سے مسلسل کالیں موصول ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بعض اوقات یہ بہت مشکل ہو جاتا ہے، مجھے بہت زیادہ توازن رکھنا ہوتا ہے کیونکہ بطور مسلمان پارٹی مجھے ووٹ کے حصول کے لیے کمیونٹی کے پاس بھیجتی ہے، میں خوفزدہ ہوں اور عوامی تقریب یا پروگرام میں جاتے وقت اپنی ذاتی سیکیورٹی ساتھ رکھتا ہوں۔

بی جے پی ترجمان نے جواب دیا کہ پارٹی کے مسلم رہنماؤں کو خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ مختلف سرکاری فلاحی پروگراموں میں ان کی برادری کو یکساں فائدہ ہوتا ہے۔

افتخار احمد جاوید نے کہا کہ حکم کا اطلاق ریاست کے تمام مدارس پر ہوتا ہے، خواہ وہ نجی فنڈز سے چل رہے ہوں یا حکومتی فنڈز سے۔

عدالت نے اپنے حکم کے اطلاق کے لیے کوئی ٹائم لائن نہیں دی لیکن افتخار جاوید نے کہا کہ مدارس کے فوری بند ہونے کا امکان نہیں ہے۔

بی جے پی کے زیر اقتدار شمال مشرقی ریاست آسام بھی سیکڑوں مدارس کو روایتی اسکولوں میں تبدیل کر رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں