اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا اسرائیل پر فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کا الزام

نیو یارک (ڈیلی اردو/وی او اے) اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے بھاری اکثریت سے ایک قرارداد منظور کی جس میں اسرائیل سے غزہ میں ممکنہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے لیے جوابدہ ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔ صرف چھ ممالک نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا، جس کے حق میں 28 ووٹ آئے اور 13 ارکان غیر حاضر رہے۔

جنیوا میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر بلال احمد نے اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی کی جانب سے قرارداد کا مسودہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ قرارداد مقبوضہ فلسطینی علاقوں بالخصوص غزہ کی پٹی میں “انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں” اور “اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کرنے کے ردعمل میں ہے۔

جمعے کو منظور ہونے والی قرارداد میں تمام ملکوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ “اسرائیل کو ہتھیاروں، گولہ بارود اور دیگر فوجی سازوسامان کی فروخت، منتقلی بند کر دیں۔” اس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل فوری طور پر غزہ کی پٹی میں اپنی ناکہ بندی اور اجتماعی سزا کی دیگر تمام اقسام کو ختم کرے اور قرارداد میں “غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اسرائیل کا ردعمل

اقوام متحدہ میں اسرائیل کی سفیر میرو ایلون شہر نے ووٹنگ کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ “انسانی حقوق کی کونسل نے ابھی ابھی ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں مفروضہ ہے کہ وہ احتساب اور انصاف سے متعلق ہے۔”

سفیر نے صحافیوں کو بتایا کہ کونسل کی جانب سے قرارداد کی منظوری سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ’’اسرائیلیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہودیوں کے قتل سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یرغمالوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اسرائیلی خواتین کے ریپ سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘۔

انہوں نے سوال کیا۔ فلسطینی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے اسرائیلیوں کے لیے احتساب کہاں ہے؟

ووٹنگ سے قبل کونسل سے اپنے جذباتی خطاب میں، جنیوا میں اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ابراہیم خریش نے غزہ میں “انسانی تباہی” کی مذمت کی۔ اور اسے فوری طور پر روکنے کی اپیل کی۔

انہوں نے کہا۔”ہمیں آپ سب کے بیدار ہونے اور اس قتل عام کو روکنے کی ضرورت ہے … جس میں ہزاروں بے گناہ لوگ مارے گئے۔ اس کو روکنا ضروری ہے۔ ”

جنیوا میں اقوام متحدہ میں امریکی سفیر مشیل ٹیلر نے اس سے اتفاق کیا کہ غزہ کی لڑائی میں “بہت زیادہ شہری مارے گئے ہیں”۔

“تمام شہری زندگیوں کا تحفظ اخلاقی اور اسٹریٹجک طور پر ضروری ہے اور اسرائیل نے شہریوں کے نقصان کو کم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے ہیں۔ ہم بے پناہ جانی نقصان اور مناسب انسانی امداد کی کمی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں جس نے غزہ میں مردوں، عورتوں اور بچوں کو وسیع پیمانے پر غذائی قلت کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔
اسرائیل کے جنگی طرز عمل پر اس تنقید کے باوجود، ٹیلر نے کہا کہ امریکہ اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دے سکتا کیونکہ اس میں بہت سارے ایسے معاملات ہیں جو مسئلہ ہیں۔

انہوں نے اس ضمن میں کہا کہ مثال کے طور پر، 7 اکتوبر کے خوفناک حملوں پر حماس کی کوئی خاطر خواہ مذمت نہیں ہے، نہ ہی ان کارروائیوں کی دہشت گرد نوعیت کا کوئی حوالہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قرارداد کا متن ایک دہشت گرد تنظیم کی جانب سے بے دردی سے اغوا کیے جانے والے یرغمالوں اور ان قیدیوں کے درمیان جن کے لیے ایک قانونی عمل کے موجود ہے،کوئی فرق نہیں کرتا۔

امریکی سفیر مشیل ٹیلر نے کہا،” مجھے واضح کرنے دیں،” یہ گروپ مساوی نہیں ہیں۔”

امریکہ، ارجنٹائن، جرمنی، ملاوی، بلغاریہ اور پیراگوئے نے قرار داد کے خلاف ووٹ دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں