پاکستان میں مدارس بچوں کیلئے ڈراؤنا خواب بن گئے

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئر پرسن اسد بٹ کا کہنا ہے کہ مدارس بچوں کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئے ہیں، جہاں نہ صرف ان کو بری طرح مارا پیٹا جاتا ہے بلکہ ان کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں جنسی زیادتی کے الزامات کے تحت کئی مدارس کے مولویوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان واقعات نے مدارس کے ماحول اور وہاں پڑھنے والے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے پرانی بحث پھر تازہ کر دی ہے۔

پاکستان میں واقع سینتیس ہزار سے زیادہ مدارس میں پڑھنے والے بچوں کی مجموعی تعداد 30 لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ بہت سے بچے ان مدارس میں نہ صرف بے رحمانہ جسمانی تشدد کا سامنا کرتے ہیں بلکہ ان مدراس میں ہر سال جنسی زیادتی کے کئی واقعات بھی رپورٹ کیے جاتے ہیں، جن میں عموما ملزمان آسانی سے بچ نکلتے ہیں۔

پاکستان میں مدارس کے نصاب اور اس کے انتظامات کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے کئی مرتبہ کوششیں کی گئیں لیکن ہر مرتبہ مذہبی طبقات کے حوالے سے اس طرح کی اصلاحات کے خلاف شدید رد عمل آتا ہے۔

الزام عائد کیا جاتا ہے کہ مدارس میں جنسی جرائم کے واقعات پر مذہبی طبقات مبینہ طور پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور کچھ معاملات میں ملزمان کی نہ صرف پشت پناہی کرتے ہیں بلکہ ان کا بھرپور دفاع بھی کرتے ہیں۔

جنرل مشرف کے دور میں ملک میں رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 36 ہزار سے زیادہ تھی، جس میں 18 ہزار سے زیادہ مدارس کا تعلق دیوبندی مکتبہ فکر سے تھا جبکہ دوسرے نمبر پہ بڑے مدارس کی تعداد بریلوی مکتب فکر کے لوگوں کی تھی۔

مدارس کی تعداد

مدارس کی تعداد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھ گئی ہے۔ اس تعداد کے حوالے سے وفاق المدارس کے سیکرٹری جنرل مولانا حنیف جالندھری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہمارے وفاق کے زیر انتظام 23 ہزار کے قریب مدارس ہیں، جس میں 30 لاکھ کے قریب طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ اور وفاق بھی معرض وجود میں آئے ہیں۔‘‘

جامع نعیمیہ لاہور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”بریلوی مکتب فکر کے چار امتحانی بورڈ ہیں اور ان بورڈز سے تقریبا 15 ہزار مدارس وابستہ ہیں، جہاں پانچ لاکھ سے زائد طالب علم پڑھتے ہیں۔‘‘

شیعہ مدارس کے نظام سے وابستہ لال حسین توحیدی کا کہنا ہے کہ شیعہ مکتبہ فکر کے تقریبا 600 کے قریب مدارس ہیں۔ اس کے علاوہ اہل حدیث مکتبہ فکر، ڈاکٹر طاہر القادری، کالعدم جماعت الدعوہ اور دوسری چھوٹی تنظیمیں بھی مدارس چلا رہی ہیں۔

مدارس کے بورڈز

پاکستان میں مدارس نے مختلف انتظامی بورڈز یا وفاق بنائے ہوئے ہیں، جس میں وفاق المدارس العربیہ، تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان، وفاق المدارس سلفیہ اور وفاق المدارس الشیعہ شامل ہیں۔

مدارس میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم نے معاشرے کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور انسانی حقوق کے کارکنان خصوصا ان واقعات میں چراغ پا ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئر پرسن اسد بٹ کا کہنا ہے کہ یہ مدارس بچوں کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئے ہیں، جہاں نہ صرف ان کو بری طرح مارا پیٹا جاتا ہے بلکہ ان کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔

اسد بٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”مولویوں کا دباؤ اتنا ہوتا ہے کہ اس طرح کی جنسی جرائم کے ارتکاب کرنے والے آسانی سے چھوٹ جاتے ہیں۔‘‘

اسد بٹ کے مطابق آج جس بچے کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، کل اسے بھی مدرسے میں پڑھانا ہے، ”اس طرح کئی نسلیں برباد ہوں گی کیونکہ وہ بھی کسی سے انتقام لے گا۔ بہتر یہی ہے کہ والدین خود بچوں کو دین کی تعلیم دیں اور ان مدرسوں کو بند کیا جائے۔‘‘

اسد بٹ نے مطالبہ کیا کہ حکومت ایسے جرائم میں ملوث لوگوں کو سخت سے سخت سزا دے، ”مدارس کی مانیٹرنگ کو مزید سخت کیا جائے۔ سول سوسائٹی پہ مشتمل ایسی کمیٹیاں بنائی جائیں، جو ان مدارس کا کسی بھی وقت اچانک دورہ کریں۔ بچوں اور والدین سے انٹرویو کریں اور ایسے جرائم میں ملوث افراد کا ڈیٹا مرتب کیا جائے۔‘‘

مذہبی طبقے کی خاموشی

کئی حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستان کے مذہبی علماء عورت مارچ سے لے کر کسی اسپورٹس کے پروگرام تک پر اعتراض اور احتجاج کرتے ہیں لیکن جب اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو وہ اس پر خاموش ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کا کہنا ہے کہ مدارس معاشرے سے کٹ کر کوئی الگ چیز نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یہ صرف مدارس کا معاملہ نہیں ہے۔ پورے ملک میں تقریبا اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں لیکن مدارس کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ میں خود ہاسٹل کی زندگی میں رہا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ لاہور اور ملک کے دوسرے علاقوں کے ہاسٹلز میں کیا ہوتا ہے۔‘‘

شیعہ نظام مدارس سے تعلق رکھنے والے توحیدی کا کہنا ہے کہ ان کے مدارس میں اس طرح کے واقعات رونما نہیں ہوئے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”صرف پانچ سال پہلے ایک واقعہ ہوا تھا اور اس کے بعد مدرسہ بند کر دیا گیا تھا۔‘‘

لال حسین توحیدی کے مطابق اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے۔

ان واقعات کے بعد یہ بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا مدارس کے مختلف وفاقوں کو اس سلسلے میں آگے بڑھ کر کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے مولانا حنیف جالندھری کہتے ہیں کہ وفاق کا دائرہ اختیار محدود ہے۔

حنیف جالندھری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” ہمارے ہاں کام بنیادی طور پہ امتحانات کا انعقاد کرانا ہے۔ اگر کوئی مدرسہ ہمیں اس طرح کے واقعے کے بارے میں بتاتا ہے یا ہمیں کسی حوالے سے پتہ چلتا ہے تو ہم اس کی پوری جانچ پڑتال کرتے ہیں اور اس مدرسے کا الحاق وفاق کے ساتھ ختم کر دیتے ہیں۔‘‘

حنیف جالندھری کے مطابق اگر کوئی فرد یا مدرسے کے اسٹاف کا رکن ملوث ہو۔ تو پھر مدرسے سے کہا جاتا ہے کہ وہ ایسے استاد یا مدرسے کے اسٹاف ممبر کو نوکری سے فارغ کرے۔‘‘

سزاوں کی کم شرح

ان واقعات میں سزاؤں کی شرح کم ہوتی ہے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ماہر قانون نثار شاہ کا کہنا ہے کہ کم سزا کی بڑی وجہ مولویوں کا اثر ورسوخ ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”مولوی ایسے بچے کے گھر والوں پر دباؤ ڈالنا شروع کردیتے ہیں، جب کہ پولیس اور انتظامیہ کو احتجاج اور مظاہروں سے ڈراتے ہیں۔‘‘

نثار شاہ کے مطابق اس کے علاوہ سائنسی طور پر ثبوت اکٹھے نہیں کیے جاتے، ”اگر فوری طور پر ڈی این اے اور دوسرے سائنسی طریقے سے ثبوت اکٹھے کئے جائیں، تو یقینا ایسے لوگوں کو سزائیں دی جا سکتی ہیں۔‘‘

اسد بٹ کے مطابق ان واقعات میں معافی کو بالکل ختم کیا جائے، ”ریاست ایسے مقدمات کو لڑنے کی خود ذمہ داری لے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں