غزہ میں فائر بندی کیلئے مذاکرات جمود کا شکار کیوں؟

برلن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز/اے پی) رواں ہفتے اسرائیل اور حماس نے کسی فائر بندی معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنے لیے اڑتالیس گھنٹے کی ڈیڈلائن مقرر کی تھی، مگر جمعرات کو فریقین میں سے کسی نے بھی بین الاقوامی ثالثی کے دباؤ کے باوجود سیزفائر پر رضامندی کا اشارہ نہ دیا۔

امریکہ، قطر اور مصر نے مشترکہ طور پر ایک فائربندی معاہدے کا مسودہ تیار کیا ہے، جس کے تحت چھ ہفتوں تکفائربندی رہے گی، جب کہ اس دوران اسرائیلی جیلوں میں قید کئی سو فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے چالیس اسرائیلی شہری رہا کیے جانا ہیں۔

اس دوران غزہ کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امدادی سامان کی ترسیل میں اضافہ بھی ممکن ہونا ہے، جہاں متعدد علاقوں میں اب بے گھر افراد واپس لوٹ رہے ہیں اور انہیں فوری مدد کی اشد ضرورت ہے۔

اس فائربندی معاہدے کا بنیادی مقصد غزہ میں حماس کے جنگجوؤں کے زیر قبضہ 139 اسرائیلی یرغمالیوںکی رہائی کو ممکن بنانا ہے، جب کہ ساتھ ہی غزہ سے اسرائیلی افواج کے بتدریج انخلا کی راہ بھی ہموار کرنا ہے۔

جنیوا میں قائم سینٹر فار اسٹڈیز اور ریسرچ فار دی عرب اینڈ میڈیٹیرینیین ورلڈ سے وابستہ حسنی عابدی کے مطابق، ”اس وقت مذاکرات جمود کا شکار ہیں۔‘‘

فریقین تاہم مذاکرات جاری رکھنے پر راضی ہیں۔ حماس کے ترجمان حسین بدران نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ”حماس اس پیشکش کا جائزہ لے رہی ہے اور اب تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ حماس غزہ میں مستقبل فائر بندی چاہتی ہے، تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو حماس کے تمام جنگجو دستوں کے خاتمے تک جنگ جاری رکھنے پر مصر ہیں۔

نیتن یاہو کا کہنا ہے کہاب بھی حماس کی چار بٹالینز رفح کے علاقے میں سرگرم ہیں۔ رفح میں ڈیڑھ ملین فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں تاہم نیتن یاہو نے امریکہ سمیت مختلف مغربی ممالک کے منع کرنے کے باوجود رفح میں زمینی فوجی کارروائی کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

7 اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل میں کیے گئے ایک بڑے دہشت گردانہ حملے میں گیارہ سو ستر اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے تھے، جن میں سے بڑی تعداد عام شہریوں کی تھی۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پٹی میں بڑی فضائی اور زمینی عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔ حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ان کارروائیوں میں اب تک 33482 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے بہت بڑی تعداد فلسطینی خواتین اور بچوں کی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں