پاکستان نے ایرانی حمایت یافیہ زنیبیون بریگیڈ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا

اسلام آباد (ش ح ط) پاکستان نے ایرانی حمایت یافیہ عسکری تنظیم زنیبیون بریگیڈ کو دہشتگرد تنظیم قرار دیتے ہوئے اس کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی۔

29 مارچ کو جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کے مطابق ’زینبیون بریگیڈ پاکستان میں امن و امان اور اس کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔‘

ادھر کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں حاصل اختیارات کے تحت زینبیون بریگیڈ کا نام اسی قانون میں کالعدم تنظیموں کے ناموں پر مشتمل شیڈول ون میں شامل کیا ہے۔

نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی ’نیکٹا‘ نے بھی زینبیون بریگیڈ کا نام اپنی ویب سائٹ پر موجود کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی پاکستان میں دہشت گردی اور دیگر خطرات سے نمٹنے کیلئے قائم ہونے والے نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل (نیکٹا) کے تحت دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیموں کی تعداد بڑھ کر 79 ہو گئی ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ اس تنظیم کی کارروائیوں سے پاکستان کی قومی سلامتی کو بھی شدید خطرہ تھا، البتہ زنیبیون نے پاکستانی مفادات کو نشانہ بنانے کی بظاہر کبھی براہ راست دھمکی نہیں دی ہے۔

پاکستان کا الزام ہے کہ سن 2013 میں بننے والی پاکستانی شدت پسند تنظیم سپاہ محمد کی زینبیون بریگیڈ کو بیرونی فنڈنگ حاصل تھی۔

جولائی 2022 میں اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے سینیٹ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ زینبیون کے عسکریت پسند 2019 سے 2021 تک پاکستان میں ’دہشت گردی کی سرگرمیوں میں فعال طور پر ملوث پائے گئے۔‘

فروری 2021 میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے ترجمان اور انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے تصدیق کی تھی کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے زینبیون بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے کئی عسکریت پسندوں کو پکڑا ہے۔

واضح رہے کہ فاطمید بریگیڈ کو شام میں سب سے بڑا ایران نواز گروپ سمجھا جاتا ہے اور وہ پاکستانی جنگجوؤں کا گروہ زینبیون کیساتھ ساتھ 2019ء سے امریکی پابندیوں کی زد میں ہے۔

پاکستان میں شیعہ کالعدم تنظیمیں

جنوری 2002 کو حکومتِ پاکستان نے تحریکِ جعفریہ پاکستان کو بھی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا تھا۔

قومی ادارہ برائے انسدادِ دہشت گردی (نیکٹا) کے مطابق تحریکِ جعفریہ پاکستان پر بھی فرقہ واریت پھیلانے کے الزامات عائد کرتے ہوئے پابندی عائد کی گئی تھی۔

گلگت بلتستان میں2011 سے 2013 کے دوران شیعہ طلبہ ایکشن کمیٹی، مرکز سبیل آرگنائزیشن اور مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نامی تنظیموں پر فرقہ وارانہ شدت پسندی پھیلانے کے الزام پر پابندی لگائی گئی۔

وفاقی وزارتِ داخلہ نے دو ایسے کم معروف شیعہ عسکریت پسند گروہوں انصار الحسین کو دسمبر 2016 اور خاتم الانبیا کو اگست 2020 میں کالعدم قرار دیا تھا جن پر پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے اور نوجوانوں کو لڑنے کیلئے بیرونِ ملک خصوصاً شام بھیجنے کے الزامات تھے۔

اب تک کالعدم قرار دی جانے والی 79 تنظیموں میں کچھ شیعہ تنظیمیں ایسی بھی ہیں جن سے متعلق بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔

ان میں اسلامی تحریک پاکستان (تحریک جعفریہ پاکستان) شامل ہے۔

14 اگست 2001 کو سپاہِ محمد پاکستان کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔

28 جنوری سن 2002 میں تحریک جعفریہ پاکستان پر پابندی لگنے کے بعد اس کا نام اسلامی تحریک رکھ دیا گیا۔ تحریک جعفریہ جنرل ضیاالحق کے زمانے میں جولائی انیس سو اسی میں شیعہ مسلک کے افراد کے زکوۃ کی جبری ادائیگی کے خلاف کامیاب احتجاج کے نتیجے میں بنی تھی۔ جس کے بانی شیعہ مجتہد علامہ جعفر حسین تھے اور اس وقت اس کا نام تحریک نفاذ فقہ جعفریہ رکھا گیا تھا جسے بعد میں بدل کر تحریک جعفریہ کردیا گیا۔

اس وقت مولانا اعظم طارق کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں زیر حراست مولانا ساجد نقوی اگست انیس سو اٹھاسی میں عارف حسین حسینی کے قتل کے بعد تحریک جعفریہ کے صدر بنے اور اس پر پابندی لگنے کے بعد انھوں نے اسلامی تحریک کی قیادت سنبھالی۔

تنظیم زینبیون بریگیڈ کیسے وجود میں آئی؟

2000 میں شام میں صدر بننے والے بشار الاسد کے خلاف 2011 میں ہونے والے حکومت مخالف اور بےروزگاری، بدعنوانی اور سیاسی پابندیوں کے خلاف پرامن احتجاج نے جلد ہی کھلم کھلا خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی۔ شام کی جنگ کے کچھ عرصے بعد فرقہ واریت میں بٹ گئی اور سیرئن آبزرویٹری فار ہیوم رائٹس کے مطابق اس جنگ میں اب تک تقریباً چار لاکھ سے زائد تصدیق شدہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔

شام میں جنگ چھڑنے کے بعد کئی ممالک کی شدت پسند تنظیموں نے شام کا رخ کیا۔ امریکی سکیورٹی اور کنسلٹنٹ فرم سوفان گروپ کے مطابق 2016 تک شام میں 81 ممالک کی شدت پسند تنظیمیں موجود تھیں۔ البتہ پاکستانی شدت پسند تنظیموں کو شام آنے میں کچھ عرصہ لگا۔

2013 میں شام کے دارالحکومت دمشق میں بی بی زینبؑ کے روضے اور دیگر مقدس مقامات پر حملے کے بعد بی بی زینبؑ کے روضے کی حفاطت کے لیے دو تنظیمیں بنائی گئی، جن میں پاکستانی شدت پسند تنظیم سپاہ محمد کی زینبیون بریگیڈ میں پاکستانیوں کو لیا گیا تاکہ وہ شام جاکر لڑائی میں حصہ لے سکیں۔

2015 میں زینبیون بریگیڈ کی جانب سے سوشل میڈیا پر بھرتیوں کے متعلق جاری مہم میں کہا گیا تھا کہ زینبیون بریگیڈ میں بھرتی ہونے کی عمریں 18 سے 35 سال کے درمیان ہیں۔ بھرتی ہونے والے کو 12 سو امریکی ڈالر ماہوار تنخواہ اور ہر تین ماہ بعد 15 دن کی چھٹیاں ملیں گی۔ ویسے تو بھرتی پاکستان بھر سے کی گئی مگر اکثریت پارا چنار اور سابق فاٹا سے شامل ہوئی۔ جب کہ کچھ بلوچ بھی بھرتے کیے گئے مگر ان کا ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ ان کا تعلق پاکستانی بلوچستان سے تھا یا ایرانی بلوچستان سے۔

زینبیون بریگیڈ کے اکثریت رضاکاروں کو دمشق میں ہی رکھا گیا تھا۔ شدت پسندی کے موضوع پر مہارت رکھنے والے تجزیہ نگار اور کراچی کے صحافی روحان احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زینبیون بریگیڈ میں بھرتی ہونے والوں میں سے چند کا تعلق پہلے سے پاکستان میں کسی شیعہ تنظیم یا گروپ سے تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قانون نافذ کرنے والے ادارے اس تنظیم کے حوالے سے زیادہ کھل کر بات نہیں کرتے کیونکہ زینبیون کا نام جب بھی آتا ہے اس کے ساتھ پڑوسی ملک ایران کا نام بھی سامنے ہے، انہیں اس بات کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں ان کے بیانات سے پاکستان کے ایران سے تعلقات پر برا اثر نہ پڑے۔‘

اس کے علاوہ شام میں لڑنے کے لیے افغانستان کے رضاکاروں کا فاطمیون بریگیڈ نامی گروپ بنایا گیا۔ ایرانی پاسداران انقلاب اور قدس فورس نے ایران میں موجود 30 لاکھ سے زائد افغان تارکین وطن کو فاطمیون بریگیڈ میں بھرتی کیا۔ ایران نے فاطمیون بریگیڈ میں بھرتی ہونے والے افغانوں کو ایرانی شہریت دینے کا اعلان کیا تھا، جبکہ پاسداران انقلاب اور قدس فورس نے رضاکاروں کو 1100 امریکی ڈالر ماہانہ تنخواہ دی۔

زینبیون بریگیڈ اور فاطمیون بریگیڈ شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے رضاکاروں کے ملیشیا گروہ ہیں۔

انسداد دہشت گردی کے محکمے سی ٹی ڈی کے ڈی آئی جی عمر شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زینبیون بریگیڈ کے پاکستانی اور فاطمیون بریگیڈ کے افغان رضاکار ایرانی پاسداران انقلاب کے بازو قدس فورس کی معرفت شام میں شدت پسند لڑائی لڑنے گئے۔

ان کے مطابق: ’زینبیون بریگیڈ میں پاکستان سے ہرقسم کے شیعہ بشمول اردو بولنے والے شیعہ، پاراچنار اور گلگت کے شیعہ بھی گئے۔ شام جا کر لڑائی میں حصہ لینے پاکستان سے کتنے لوگ گئے، اس کی درست تعداد بتانا مشکل ہے، کیوں کہ کچھ لوگ غیر قانونی طریقے سے گئے تو کچھ لوگ مذہبی زیارتوں پر گئے اور وہاں سے ہی شام چلے گئے۔ میرا اندازہ ہے کہ دو ہزار سے آٹھ ہزار افراد پاکستان سے شام گئے ہیں۔‘

دنیا بھر میں جیسے شدت پسند تنظیمیں کمزور ہوئی ہیں اسی طرح شام میں القاعدہ سے منسلک سلفی جہادی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ فی عراق والشام (آئی ایس آئی ایس) المعروف داعش اور شام میں جنگ لڑنے والی دیگر تنظیمیں بھی کمزور ہوئی ہے۔ عمر شاہد کے مطابق گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان سے شام جانے والے زینبیون بریگیڈ کے افراد وطن واپس آنا شروع ہو گئے ہیں۔

’ہم زینبیون بریگیڈ کی کراچی سمیت پاکستان میں موجودگی کے بارے میں جانتے ہیں۔ ہم ان کے واپسی پر بھی نظر رکھی ہوئی ہے۔ حالیہ دنوں میں زینبیون بریگیڈ سے وابسطہ چند شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ باقی بچے ہوئے افراد کے لیے بھی چھاپے مارے جارہے ہیں۔‘

اسی طرح بعض سُنی گروپس کے بارے میں بھی یہ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ وہ صدر بشار الاسد کے مخالف گرہوں کے ساتھ مل کر وہاں برسر پیکار ہیں۔

ایسی خبریں بھی سامنے آتی رہیں ہیں کہ یہ افراد شام کے علاقے دمشق اور حلب میں داعش کے خلاف برسر پیکار رہے ہیں اور ان میں سے درجنوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں جن کی تدفین ایران میں کی گئی۔ لیکن اس حوالے سے سرکاری طور پر کبھی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔

سیکیورٹی ماہرین کیا کہتے ہیں

سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندی سے یہ خطہ بُری طرح متاثر ہوا ہے اور پاکستان کو کسی حد تک اب بھی اس عفریت کا سامنا ہے۔ جس کے کئی اندرونی اور بیرونی عوامل ہیں۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسے ختم ہونے میں وقت لگتا ہے جس کے لئے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دیگر طاقتوں کی پراکسی وار کی تاریخ ہی ہے، جس میں بیرونی عناصر مقامی افراد کو استعمال کر کے کسی نہ کسی طرح کے مسائل پیدا کرتے رہتے ہیں اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ افغان جنگ کے بعد ہمارے ہاں فرقہ وارانہ تشدد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، اور سیاست میں مذہب کارڈ آنے کے بعد اس کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔

تاہم سابق آئی جی پولیس کے خیال میں یہ خطہ بالخصوص پاکستان فرقہ وارانہ تشدد، عسکریت پسندی کے نکتہ عروج سے شاید گُزر چکا ہے، جس میں ملک میں ایک خانہ جنگی جیسی کیفیت تھی۔ تاہم اب یہ دیکھنا ہے کہ ریاست کس قدر جلد اس مسئلے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔

افضل شگری کے مطابق پاکستان میں اب پرتشدد منظم گروہوں کا کافی حد تک خاتمہ کیا جاچکا ہے۔ لیکن بے روزگاری اور غربت سے جیسے معاشی مسائل اور بیرونی مداخلت کی وجہ چیلنجز اب بھی موجود ہیں۔

سابق آئی جی نے کہا کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث افراد کی پاکستان میں بلا روک ٹوک آمد و رفت روکنے کے لئے افغانستان اور ایران کے بارڈر پر باڑ لگائی جا رہی ہے جو کہ کچھ میں سال مکمل ہو جائے گی۔ توقع ہے کہ اس سے کافی حد تک دہشت گردی، تشدد اور دیگر جرائم روکنے میں نمایاں مدد ملے گی۔



اس رپورٹ میں شامل کچھ مواد خبر رساں ادارے انڈپینڈنٹ اور وی او اے سے لیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں