امریکی عدالت میں 20 برس بعد ابو غریب جیل کے قیدیوں کے مقدمے کی سماعت سوموار ہوگی

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) آج سے بیس سال قبل اپریل کے ہی مہینے میں عراق کی ابو غریب جیل میں بدسلوکی کا شکار قیدیوں اور ان کی حفاظت پر مامور امریکی فوجیوں کی مسکراتے ہوئے تصاویر جاری کی گئی تھیں جس نے دنیا کو چونکا کر رکھ دیا تھا۔

امریکی عدالت میں اگلے ہفتے ابو غریب جیل میں قید زندہ بچ جانے والے تین قیدیوں کا مقدمہ اُس فوجی کنٹریکٹر کے خلاف سنا جائے گا جسے وہ اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

اس مقدمے کی سماعت ریاست ورجینیا کے شہر الیگزینڈریا کی عدالت میں پیر کو شروع ہو گی۔

مدعیان کی نمائندگی کرنے والے مرکز برائے آئینی حقوق کے وکیل بحر اعظمی کے مطابق یہ پہلا موقع ہو گا کہ ابو غریب کے زندہ بچ جانے والے اپنے تشدد کے دعوے امریکی جیوری کے سامنے پیش کر سکیں گے۔

خبر رساں ادارے ‘ایسو سی ایٹڈ پریس’ کے مطابق اس سول مقدمے میں مدعا علیہ کنٹریکٹر کمپنی ‘سی اے سی آئی’ نے کسی بھی غلط کام سے انکار کیا ہے اور 16 سال کی قانونی چارہ جوئی کے دوران اس بات پر زور دیا ہے کہ اس کے ملازمین پر الزام نہیں ہے کہ انہوں نے کیس میں کسی بھی مدعی کے ساتھ بدسلوکی کی ہے۔

دوسری طرف مدعی اس کنڑیکٹر کو ان حالات کے پیدا کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں تشدد برداشت کرنا پڑا۔ وہ اس سلسلے میں حکومتی تحقیقات میں ثبوت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سی اے سی آئی کے کنٹریکٹرز نے فوجی پولیس کو حراست میں لیے گئے افراد سے پوچھ گچھ کے لیے انہیں کمزور کرنے کی ہدایت کی۔

ریٹائرڈ آرمی جنرل انتونیو تگوبا، جنہوں نے ابو غریب اسکینڈل کی تحقیقات کی قیادت کی، ان لوگوں میں شامل ہیں جن کی گواہی متوقع ہے۔

انتونیو تگوبا کی انکوائری نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سی اے سی ائی کنٹریکٹر کمپنی کے کم از کم ایک تفتیش کار کو جوابدہ ہونا چاہیے جس نے ملٹری پولیس کو ایسی شرائط طے کرنے کی ہدایت کی ہو جو جسمانی زیادتی کے مترادف ہوں۔

اے پی نے اپنی رپورٹ میں نوٹ کیا کہ اس بات پر بہت کم اختلاف ہے کہ ابو غریب جیل میں قیدیوں کے ساتھ زیادتی خوف ناک تھی۔ سال 2004 میں جاری ہونے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ برہنہ قیدیوں کا اہرام بنایا جارہا ہے یا انہیں پٹیوں سے گھسیٹا جا رہا ہے۔

کچھ تصاویر میں ایک سپاہی مسکراتے ہوئے انگوٹھے سے اس واقع کی تعریف کر رہا ہے جب کہ وہ لاش کے پاس پوز دے رہا ہے۔ تصاویر میں قیدیوں کو کتوں سے ڈراتے ہوئے اور سر ڈھانپے ہوئے بجلی کے تاروں سے جڑا دکھایا گیا ہے۔

ان بدنام زمانہ تصویروں میں مدعیوں کی واضح طور پر شناخت نہیں کی جا سکتی لیکن ان کے ساتھ بدسلوکی کی صورتیں پریشان کن ہیں۔

ایک قیدی سہیل الشماری نے جیل میں اپنے دو ماہ کے دوران ہونے والے جنسی حملوں اور مار پیٹ کے واقعات بیان کیے ہیں۔ اسے بجلی کا جھٹکا بھی لگا اور گلے میں رسی باندھ کر جیل میں گھسیٹا بھی گیا۔

قطری نشریاتی ادارے ‘الجزیرہ’ کے سابق رپورٹر صلاح العجائیلی نے کہا کہ وہ جیل میں ذہنی تناؤ کا شکار تھے جس کی وجہ سے انہوں نے سیاہ مائع کی قے کی۔ انہیں نیند سے بھی محروم رکھا گیا، خواتین کے زیرِ جامہ پہننے پر مجبور کیا گیا اور کتوں سے ڈرایا گیا۔

کنٹریکٹر کمپنی سی اے سی آئی نے کہا ہے کہ امریکی فوج وہ ادارہ ہے جسے ابو غریب کے حالات پیدا کرنے کا ذمہ دار ہونا چاہیے اور یہ کہ اس کے ملازمین فوجیوں کو احکامات دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔

کنٹریکٹر کمپنی کے وکلاء نے دعویٰ کیا ہے کہ پورا معاملہ گروپ پر ذمہ داری عائد کرنے کی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں ہے کیوں کہ اس کے اہلکاروں نے جنگ کے علاقے کی جیل میں ایسی سرگرمی کے ماحول کے ساتھ کام کیا جس سے کچھ غلط کام لگتا ہے۔

یہ کیس 2008 سے عدالتوں میں ہے لیکن سی اے سی آئی نے اسے عدالت سے باہر رکھنے کے لیے تقریباً 20 بار کوشش کی ہے۔

سال 2021 میں امریکی سپریم کورٹ نے بالاخر سی اے سی آئی کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے مقدمے کو چلانے کے لیے اسے ڈسٹرکٹ کورٹ کو واپس بھیج دیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں