اسرائیل کی وار کابینہ کا اجلاس: ایران کے خلاف جوابی حملہ اور دیگر آپشنز پر غور

تل ابیب (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسرائیلی حکومت کے ایک ترجمان نے بی بی سی کے پروگرام ’نیوز آر‘ کو بتایا ہے کہ اسرائیل میں آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں بات چیت جاری ہے تاہم اب تک اگلے قدم کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ ایوی ہیمن نے کہا کہ اسرائیل صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے اور اس کی وار کابینہ کا اجلاس جاری ہے۔

خیال ہے کہ ایران کے حملے کے جواب میں اسرائیل کے پاس کئی ممکنہ آپشنز ہیں اور فی الحال حالتِ جنگ کے دوران بنائی گئی کابینہ ان آپشنز پر غور کر رہی ہے۔

اسرائیلی ذرائع نے نامہ نگاروں کو بریف کیا ہے کہ ایران کی طرف سے 300 ڈرون اور میزائل داغے گئے مگر اب اسرائیل اس قدر وسیع پیمانے کے حملے کو نظر انداز نہیں کرے گا۔

بعض اسرائیلی سیاستدان چاہتے ہیں کہ ایران کو ٹھوس پیغام دیا جانا چاہیے تاکہ ایران دوبارہ ایسے حملے نہ کرے۔

جنگ کی کابینہ کے بعض ارکان کی رائے ہے کہ یہ ایران کے خلاف ’علاقائی اتحاد‘ کو مضبوط کرنے کا موقع ہے کیونکہ امریکہ، برطانیہ، اردن اور دیگر اتحادیوں نے ایرانی حملے کو روکنے میں کردار ادا کیا ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایران نے اس کی فضائیہ کے اڈے ’نواتیم‘ سمیت اہم عمارتوں پر حملے کی کوشش کی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اسرائیل کے سٹیلتھ جنگی طیارے موجود ہیں۔ تاہم ایرانی حملے کو بروقت روک لیا گیا۔

ایران کا موقف ان خطوط پر ہے کہ ’حساب اور معاملہ اب برابر ہے، یہ بات یہاں ختم ہو جانی چاہیے، اب ہم پر جوابی وار نہ ہو اگر ہوا تو ہم آپ پر اس سے زیادہ زور دار حملہ کریں گے جسے آپ روک نہیں سکیں گے۔‘

لیکن، اسرائیل پہلے ہی ’اہم ردعمل یا جوابی کارروائی‘ کے عزم کا اظہار کر چکا ہے اور اس کی حکومت کو اکثر اسرائیلی تاریخ میں سب سے زیادہ سخت گیر کہا جاتا رہا ہے۔

اس نے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کا جواب چند گھنٹوں کے اندر دیا اور پھر اگلے چھ ماہ غزہ کی پٹی کو تباہ کرنے میں گزارے۔

اسرائیل کی جنگی کابینہ کا ایران کے اس براہِ راست حملے کو جواب کے بغیر چھوڑنے کا امکان کم ہی نظر آتا ہے، تاہم اس کا اثر زمینی سطح پر محدود نہیں ہو گا۔

اسرائیل اسی طرح کے، احتیاط سے ترتیب دیے گئے، طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل حملوں کا ایک سلسلہ شروع کر سکتا ہے، جس میں صرف ان میزائل اڈوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے جہاں سے ایران نے گذشتہ رات حملہ کیا تھا۔

ایران اب بھی اسے کشیدگی میں اضافے کے طور پر دیکھے گا کیونکہ یہ پہلا موقع ہوگا جب اسرائیل خطے میں مخالف ملیشیا کو نشانہ بنانے کے بجائے ایران پر براہ راست حملہ کیا ہے۔

یا اسرائیل اس کشیدگی کو مزید بڑھاوا دیتے ہوئے ایران کے طاقتور فوجی دستے پاسداران انقلاب سے تعلق رکھنے والے اڈوں، تربیتی کیمپوں اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز کو اپنے ممکنہ ردعمل کے لیے نشانہ بنا سکتا ہے۔

دونوں آپشنز میں سے کسی ایک پر بھی ایران کی طرف سے مزید جوابی کارروائی کا خطرہ ہے۔

یہاں اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ امریکہ کو اس جنگ میں گھسیٹے گا، جس کے نتیجے میں خطے میں ایران اور امریکی افواج کے درمیان باضابطہ طور پر ایک جنگ چھڑ جائے۔

امریکہ کی تمام چھ خلیجی عرب ریاستوں کے علاوہ شام، عراق اور اردن میں فوجی تنصیبات ہیں۔

یہ سب ایران کے بیلسٹک اور دیگر میزائلوں کے بڑے ذخیرے کا ہدف بن سکتی ہیں جو اس نے بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود گزشتہ برسوں میں تیار کیے ہیں۔

ایران بھی کچھ ایسا کر سکتا ہے جس کی اس نے طویل عرصے سے صرف دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر حملہ کیا گیا تو وہ سٹریٹجک طور پر اہم آبنائے ہرمز کو بند کر دے گا۔ بارودی سرنگوں، ڈرونز اور جنگی طیاروں کا استعمال کر کے، دنیا کی تیل کی سپلائی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ بند کر سکتا ہے۔

یہ وہ ڈراؤنا خواب ہے، جو پورے خطے میں امریکہ اور خلیجی ریاستوں کو جنگ میں گھسیٹ سکتا ہے، جس سے بچنے کے لیے اب بہت سی حکومتیں 24 گھنٹے سوچ و بچار کرنے میں مصروف ہیں۔

ایران کا حملے سے قبل وارننگ جاری کرنے کا دعویٰ، برطانیہ کی تردید

برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کے ترجمان نے ایران کے اس دعوے کو مسترد کیا ہے کہ اس نے اسرائیل پر حملے کی پیشگی وارننگ دی تھی۔

گذشتہ روز ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا تھا کہ ایران نے پڑوسی ممالک اور اسرائیل کے اتحادی امریکہ کو 72 گھنٹے کا نوٹس دیا تھا کہ وہ حملہ کریں گے۔

تاہم سونک کے ترجمان نے کہا کہ وہ اس کی تردید کرتے ہیں۔ ’ہم اسرائیل پر براہ راست حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں