اسرائیلی کی جوابی حملے سے ایرانی پریشان: جوہری ایجنسی کے حکام نے ایرانی تنصیبات کا معائنہ روک دیا

نیو یارک (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے/اے پی) اسرائیل کے ایران پر جوابی حملے کی دھمکیوں کے بعد ایران کے شہری شدید پریشان ہیں جب کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے سربراہ کے مطابق آئی اے ای اے حکام نے ایرانی جوہری تنصیبات کا معائنہ عارضی طور پر روک دیا ہے۔

امریکہ کے شہر نیویارک میں پیر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل ماریانو گروسی نے کہا کہ ایران میں آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو ایرانی حکومت کی جانب سے مطلع کیا گیا تھا کہ سیکیورٹی خدشات کے باعث جوہری تنصیبات بند رہیں گی۔

آئی اے ای اے کے معائنہ کار روزانہ کی بنیاد پر ایران کی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرتے ہیں۔

رافیل ماریانو گروسی نے کہا کہ انہیں ایرانی حکومت نے بتایا تھا کہ جوہری تنصیبات پیر سے معائنے کے لیے کھول دی جائیں گی۔ لیکن انہوں نے معائنہ کاروں کو تنصیبات کا دورہ کرنے میں مزید ایک دن تاخیر کی حکمتِ عملی اپنائی ہے تاکہ صورتِ حال مکمل طور پر پر سکون ہو سکے۔

بعض مبصرین ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کا حکم دے سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ ایران نے دمشق میں اپنے سفارت خانے پر یکم اپریل کو ہونے والے حملے کے جواب میں ہفتے کو اسرائیل پر پہلی بار براہِ راست حملہ کیا تھا۔

تہران نے 300 سے زائد میزائل اور ڈرونز اسرائیل کی جانب داغے تھے۔ اسرائیل نے اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر ان میزائلوں اور ڈرون کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ البتہ ایرانی حملے میں اسرائیل کے ایک فوجی اڈے کو معمولی نقصان پہنچا تھا۔

اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ہرزی ہلیوی نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل ایران کے حملے کا جواب دے گا۔ اس حوالے سے اقدامات پر غور کیا جا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق ایران کی سیاسی اور عسکری قیادت متنبہ کر چکی ہے کہ اگر اسرائیل نے کوئی کارروائی کی تو تہران پہلے سے زیادہ سخت جواب دے گا۔

دونوں ملکوں کی جانب سے ایک دوسرے کو دھمکی آمیز بیانات کے بعد خطے میں کشیدگی پھیلنے کا خدشہ ہے۔

اسرائیل کی جوابی دھمکیوں سے ایرانی پریشان

اسرائیل کی جوابی حملے کی دھمکیوں کے بعد ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد پریشان ہے جو پہلے ہی حکومت کی سخت پالیسیوں اور معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔

دریائے ہزار کے کنارے واقع ایران کے شمال میں واقع شہر امل کے 45 سالہ استاد ہیسم کے لیے ایک اور بری خبر ہے۔

ہیسم نے ’رائٹرز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حملے کی صورت میں معاشی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا اور شہریوں کی حفاظت خطرے میں پڑ جائے گی۔

ان کے بقول تہران کو تنازع سے ہر صورت بچنا چاہیے۔ جنگ کی صورت میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہو گی۔

ہیسم جنگ نہیں چاہتے اور وہ فکر مند ہیں کہ اگر جنگ ہوئی تو وہ اپنے دو بچوں کی حفاظت کس طرح کریں گے۔

گھریلو خاتون پروانہ کو اندیشہ ہے کہ اسرائیل کا ایران پر حملہ اس کی معیشت پر آخری وار ہوگا جو کئی برس سے عائد بین الاقوامی پابندیوں، بد انتظامی اور بد عنوانی کے سبب پہلے ہی تباہ حال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایرانیوں نے کئی برس تک مشکلات برداشت کی ہیں اور جنگ ان کے لیے مزید تباہی لے کر آئے گی۔

پروانہ کی عمر 37 برس ہے۔ ان کے دو بچے ہیں اور وہ ایران کے وسطی شہر یزد کی رہائشی ہیں۔

پروانہ نے مزید بتایا کہ ان کے شوہر ایک کارخانے میں مزدوری کرتے ہیں۔ ان کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ اضافی اناج خرید کر ذخیرہ کر سکیں۔

ایران میں معاشی مشکلات کا زیادہ تر بوجھ متوسط اور کم آمدنی والے طبقے پر پڑ رہا ہے۔ ملک میں اس وقت افراطِ زر 50 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے جس کی وجہ سے بنیادی ضروریات کی اشیا، خوراک اور رہائش کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران کی کرنسی کی قدر انتہائی کم ہو چکی ہے۔

دوسری جانب ایران میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ایران کے اسرائیل پر حملے سے بہت زیادہ خوش ہے۔

تبریز شہر میں خدمات انجام دینے والے 30 سالہ سرکاری ملازم حسین صہبائی کہتے ہیں انہیں فخر ہے کہ ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا ہے۔

ان کے بقول اسرائیل نے اس معاملے کا آغاز کیا تھا جس پر ایران نے جوابی کارروائی کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ ایران بہت طاقت ور ہے۔

واضح رہے کہ ایران کے حملے کے بعد بھی مقامی ٹی وی چینلز نے مختلف ایرانی شہروں میں جشن کی ویڈیوز دکھائی تھیں۔

اسرائیل پر ایرانی حملے کے بعد اتوار کو اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی ہوا۔ اجلاس میں اسرائیل کے اقوامِ متحدہ میں سفیر جلعاد اردان نے کہا تھا کہ ایران بہت جلد جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے۔

تاہم آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل ماریانو گروسی نے صحافیوں سے گفتگو میں واضح کیا کہ ایران کے پاس افزودہ یورینیم کی ایک بڑی مقدار موجود ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تہران کے پاس جوہری ہتھیار بھی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں تک آئی اے ای اے کا تعلق ہے تو اس کے پاس اس طرح کی کوئی معلومات یا اشارے موجود نہیں کہ ایران کا جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی پروگرام ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں