فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ میں فیض حمید سمیت فوجی افسران کو کلین چٹ، شہباز حکومت ذمہ دار قرار

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن نے 2017 کے دھرنے کی ذمہ داری اس وقت شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ میں قائم مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت پر عائد کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت کی طرف سے مارچ کی اجازت دینا نامناسب عمل تھا۔ رپورٹ میں فیض حمید سمیت فوجی افسران کو کلین چٹ دے دی ہے۔

اسلام آباد اور راولپنڈی کے جنکشن فیض آباد کے مقام پر 2017 میں تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے دھرنے اور اس دوران پیش آنے واقعات پر سپریم کورٹ کے حکم پر بنائے جانے والے انکوائری کمیشن نے رپورٹ تیار کر کے وفاقی حکومت کو ارسال کر دی ہے۔

فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں ملک کی طاقت ور خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جینس (آئی ایس آئی) کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو دھرنا کرانے کے الزامات سے کلین چٹ دے دی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات میں فیض آباد دھرنے کے پیچھے کسی ادارے کے کردار کا سراغ نہیں ملا۔

یہ کمیشن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیض آباد دھرنا کیس میں فیصلے پر عدم عمل در آمد کے بعد اس دھرنے کے انعقاد اور ذمہ داران کے تعین کے لیے قائم کیا گیا تھا جس میں پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) اختر علی شاہ ، سابق آئی جی طاہر عالم اور خوشحال خان شامل تھے۔

انکوائری کمیشن نے لیفٹننٹ جنرل فیض حمید اور دھرنا ختم ہونے پر مظاہرین میں پیسے تقسیم کرتے ہوئے ویڈیوز میں دکھائی دینے والے ڈی جی رینجرز پنجاب میجر جنرل نوید اظہر حیات کو الزامات میں کلین چٹ دے دی ہے۔

رپورٹ میں قرار دیا گیا ہے کہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرِ صدارت میٹنگ میں دی گئی ہدایات پر ہی عمل کیا۔

کمیشن کے مطابق 22 نومبر 2017 کی میٹنگ کے منٹس سے بھی یہی تصدیق ہوئی۔ دھرنے سے نمٹنے کے تمام فیصلوں کی ذمہ داری سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے قبول کی ہے۔

کمیشن نے دھرنے کی ذمہ داری اس وقت کی پنجاب میں قائم شہباز شریف وزارتِ اعلیٰ میں قائم مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر عائد کی ہے۔

انکوائری کمیشن کا رپورٹ میں کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کی طرف سے اسلام آباد کی جانب مارچ کو آنے دینے کی اجازت دینا نامناسب عمل تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ شہباز شریف، احسن اقبال، زاہد حامد ، آفتاب سلطان سے بھی ایجنسیوں کے کردار کا پوچھا گیا۔ تمام متعلقہ گواہان نے کسی بھی ادارے یا شخصیت کے کردار سے انکار کیا۔ لہٰذا کمیشن کے لیے کسی بھی ایجنسی یا شخصیت کو دھرنے سے جوڑنا ممکن نہیں۔

کمیشن کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت ابتدائی سطح پر دھرنے کو روک سکتی تھی۔ صوبائی حکومت کا ٹی ایل پی کو اسلام آباد تک مارچ کی اجازت کا فیصلہ نامناسب تھا۔

کمیشن نے اس دھرنے سے قبل پنجاب حکومت کے کردار پر سوال اٹھایا کہ وہ اس دھرنے کے شرکا کو اسلام آباد آنے سے روک سکتی تھی۔ لیکن صوبائی حکومت نے ووٹ بینک بچانے کے لیے مظاہرین کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ جو قابل تعریف نہیں ہے۔ یہ ذمہ داری سے انحراف اور مس کنڈکٹ ہے لہٰذا قصورواروں کے خلاف کاروائی کی جائے۔

کمیشن نے سفارش کی ہے کہ رینجرز اور ایف سی کو واپس سرحدوں پر بھیجا جائے۔ انہیں شہری علاقوں میں آنے سے روکا جائے۔ ان پر خرچ ہونے والے وسائل پولیس کو دیے جائیں۔

کمیشن رپورٹ میں راولپنڈی کی انتظامیہ کی کوتاہی کا بھی ذکر کیا گیا اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی تجویز دی گئی ہے۔ کمیشن نے اسلام آباد اور راولپنڈی میں احتجاج سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ مخصوص فورس قائم کرنے کی بھی سفارش کی۔

انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سیاسی و سرکاری شخصیت نے کسی ایجنسی یا ریاستی ادارے کے دھرنے سے متعلق کوئی بیان یا ثبوت نہیں دیا۔ لہٰذا دھرنے سے کسی ادارے یا ریاستی اہل کار کا تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے کو منظم کرنا ثابت نہیں کر سکا۔

کمیشن نے ملک میں انٹیلی جینس اداروں کے بارے میں قانون سازی کی سفارش بھی کی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوج ریاست کا مقدس ادارہ ہے۔ اسے تنقید سے بچانے کے لیے سول امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ اس سے ادارے پر عوامی اعتماد بڑھے گا۔

کمیشن نے انٹرنل سیکیورٹی کے حوالے سے انٹیلی جینس بیورو (آئی بی) کو لیڈ رول دینے کی سفارش بھی کی جب کہ اس وقت کے آئی جی پنجاب پولیس عارف نواز کو کمیشن کے سامنے غلط بیانی پر مس کنڈکٹ کا مظاہرہ کرنے پر تادیبی کارروائی کا ذکر کیا گیا۔

کمیشن کی رپورٹ کے ساتھ موجود فہرست میں شامل وزیرِ اعظم شہباز شریف، سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیرِ داخلہ احسن اقبال، آئی بی کے موجودہ سربراہ فواد اسد اللہ، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید، آئی بی کے سابق سربراہ آفتاب سلطان، سابق آئی جی پنجاب پولیس عارف نواز، سابق ڈی جی رینجرز نوید اظہر حیات اور دیگر کے بیانات بھی لگائے گئے ہیں۔

کمیشن نے کہا کہ انٹیلی جینس ایجنسیوں کے لیے کوئی طریقۂ کار موجود نہیں ہے۔ لہٰذا ضروری قانون سازی اور قواعد و ایس او پیز کی ضرورت ہے۔

کمیشن نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا اور یہ بھی سفارش کی کہ سپریم کورٹ وزیرِ اعظم کے انتظامی اختیارات کے بارے میں فیصلے پر از سر نو غور کرے۔

کمیشن نے پیمرا آرڈیننس اور سوشل میڈیا سے متعلق قوانین میں ضروری ترامیم کی بھی تجویز دیتے ہوئے اپنی آبزرویشنز میں کہا کہ ایگزیکٹو کو اپنی ذمہ داریاں خود ادا کرنی چاہئیں۔

کمیشن نے تجویز پیش کی ہے کہ اسلام آباد تعیناتی سے قبل پولیس افسران کو دشوار علاقوں میں تعینات کیا جائے۔ امن عامہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دیگر شعبوں کو مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔

فیض آباد دھرنا تھا کیا؟

مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں 2017 میں قومی اسمبلی کے ارکان کے حلف نامے میں تبدیلی پر ٹی ایل پی نے اس وقت کے وزیرِ قانون زاہد حامد سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔

ٹی ایل پی نے اسلام آباد کی جانب مارچ کر کے وفاقی دارالحکومت کو تین ہفتوں تک بند کیے رکھا۔

بعد ازاں فوج کی ثالثی کے بعد حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت ٹی ایل پی دھرنا ختم کرنے پر راضی ہوئی جس کے تحت وفاقی وزیرِ قانون زاہد حامد مستعفی ہوئے۔

مبصرین کے مطابق حکومت کو معاہدے کے لیے دباؤ میں لانے میں کامیابی سے ٹی ایل پی کی حوصلہ افزائی کی گئی اور یہ تنظیم مزید منظم ہوئی۔

اسی دھرنے پر سپریم کورٹ نے فروری 2019 میں ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سنایا جو فیض آباد دھرنا کیس کے نام سے مشہور ہوا۔

سپریم کورٹ کے دو رُکنی بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے۔ عدالت نے حکومت کو حکم دیا کہ وہ ایسے فوجی اہل کاروں کے خلاف کارروائی کرے جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔

عدالتی حکم میں سڑکیں بلاک کرنے اور نقصِ امن کے مسائل پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا گیا تھا۔

اس دوران ایک فوجی افسر کی جانب سے دھرنے کے اختتام پر شرکا میں رقوم تقسیم کرنے کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس پر سوشل میڈیا پر تنقید کی گئی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں