ایران اور اسرائیل کے درمیان برسوں پرانی ’خونیں دشمنی‘ کی وجہ کیا ہے؟

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ ایران نے سنیچر کی شب اسرائیل کے خلاف ڈرونز اور میزائلوں سے حملہ کیا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے جنگی امور سے متعلق اپنی کابینہ کو طلب کیا اور بتایا کہ ملک کے ’دفاعی نظام‘ کو حملے سے نمٹنے کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے میں اس کے دو سینیئر فوجی کمانڈروں کی ہلاکت کے بعد ایران نے جوابی کارروائی کی بات کہی تھی اور ایران نے قونصل خانے پر حملے کا الزام اسرائیل پر لگایا تھا۔

یہ ایران اور اسرائیل کے درمیان پرانے قضیے کا تازہ ترین معاملہ ہے۔

اسرائیل اور ایران کے درمیان برسوں سے خونیں دشمنی جاری ہے اور جغرافیائی سیاسی عوامل کے نتیجے میں ان کی شدت میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ ان کے قضیے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کی اہم وجوہات میں سے ایک ہیں۔

تہران اسرائیل کو امریکہ کا حلیف ہونے کی وجہ سے ’شیطان کوچک‘ یعنی ’چھوٹا شیطان‘ کہتا ہے جبکہ اس کے لیے امریکہ ’شیطان بزرگ‘ یعنی ’بڑا شیطان‘ ہے۔

دوسری جانب اسرائیل کا الزام ہے کہ ایران ’دہشت گرد‘ گروپوں کی مالی معاونت کرتا ہے اور اس کے مفادات کے خلاف حملے کرتا ہے۔

ان ’پرانے دشمنوں‘ کے درمیان کی دشمنی کے نتیجے میں بہت ہلاکتیں ہوئی ہیں اور اکثر یہ سب پس پردہ کارروائیوں کے طور پر سامنے آیا اور کوئی بھی حکومت ان کی ذمہ داری قبول نہیں کرتی تاہم غزہ کی جنگ نے حالات کو مزید خراب کیا۔

اسرائیل اور ایران کی دشمنی کیسے شروع ہوئی؟

اسرائیل اور ایران کے درمیان تعلقات سنہ 1979 تک کافی خوشگوار ہوا کرتے تھے لیکن پھر تہران کے اقتدار پر آیت اللہ خمینی کے نام نہاد اسلامی انقلاب نے قبضہ کر لیا۔

اگرچہ ایران نے فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کی مخالفت کی تھی جس کی وجہ سے سنہ 1948 میں اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی تھی لیکن مصر کے بعد ایران دوسرا اسلامی ملک تھا، جس نے اسے تسلیم کیا تھا۔

اس وقت ایران میں بادشاہت تھی اور وہاں پہلوی خاندان کے شاہوں کی حکومت تھی اور وہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اہم اتحادیوں میں شامل تھے۔

اسی وجہ سے اسرائیل کے بانی اور اس کے پہلے سربراہ ڈیوڈ بین گورین کی حکومت نے اپنے عرب پڑوسیوں کی طرف سے نئی یہودی ریاست کو مسترد کرنے کا مقابلہ کرنے کے لیے ایران سے دوستی کی کوشش کی اور ان کی دوستی حاصل بھی کی۔

لیکن سنہ 1979 میں آیت اللہ روح اللہ خمینی کے انقلاب نے شاہ کا تختہ الٹ کر ایک اسلامی جمہوریہ قائم کی اور اس نے خود کو مظلوموں کے محافظ کے طور پر پیش کیا۔ نئی حکومت کی شناخت کی ایک اہم علامت میں امریکہ کی مخالفت اور اس کے اتحادی اسرائیل کی ’سامراجیت‘ کو مسترد کرنا شامل تھا۔

نئی آیت اللہ حکومت نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کر لیے، ان کے شہریوں کے پاسپورٹ کو تسلیم کرنا بند کر دیا اور تہران میں اسرائیلی سفارت خانے پر قبضہ کر کے اسے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے حوالے کر دیا۔ پی ایل او اس وقت اسرائیلی حکومت کے خلاف فلسطینی ریاست کی قیادت کر رہی تھی۔

عالمی تنازعات کو روکنے اور حل کرنے کی کوشش کرنے والی ایک آزاد این جی او انٹرنیشنل کرائسز گروپ میں ایران پروگرام کے ڈائریکٹر علی واعظ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اسرائیل کے خلاف دشمنی نئی ایرانی حکومت کا ایک ستون تھا کیونکہ اس کے کئی رہنماؤں نے فلسطینیوں کے ساتھ تربیت لی تھی اور انھوں نے لبنان جیسی جگہوں پر فلسطینیوں کے ساتھ گوریلا جنگ میں حصہ لیا تھا اور انھیں ان کے ساتھ بہت ہمدردی تھی۔‘

اس کے علاوہ واعظ نے یہ بھی کہا کہ ’نیا ایران خود کو ایک اسلامی طاقت کے طور پر پیش کرنا چاہتا تھا اور اسرائیل کے خلاف فلسطینی مسئلے کو اٹھانا چاہتا تھا جسے عرب مسلم ممالک نے ترک کر دیا تھا۔‘

اس طرح تہران میں سرکاری حمایت کے ساتھ بڑے فلسطینی حامی مظاہرے عام ہو گئے۔

واعظ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دوسری طرف اسرائیل میں ایران کے خلاف دشمنی سنہ 1990 کی دہائی تک شروع نہیں ہوئی تھی کیونکہ اس وقت تک صدام حسین کے عراق کو بڑا علاقائی خطرہ سمجھا جاتا تھا۔

یہاں تک کہ اسرائیلی حکومت نے ’ایران-کنترا‘ کے نام سے مشہور خفیہ پروگرام کو ممکن بنانے میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا جس کے ذریعے امریکہ نے سنہ 1980 سے سنہ 1988 کے درمیان اس کے پڑوسی عراق کے خلاف جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کو ایران کی طرف موڑ دیا تھا۔

لیکن وقت کے ساتھ اسرائیل نے ایران کو اپنے وجود کے لیے ایک اہم خطرے کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا اور دونوں کے درمیان دشمنی زبانی جنگ سے نکل کر حقیقی جنگ تک چلی گئی۔

اسرائیل اور ایران کے درمیان ’شیڈو وار‘

واعظ نے نشاندہی کی کہ دوسری بڑی علاقائی طاقت سعودی عرب سے بھی ایران کا سامنا رہا۔ ایران اس بات سے آگاہ ہے کہ وہ بنیادی طور پر سنی اور عرب اسلامی دنیا میں ایک فارسی اور شیعہ ملک ہے اور ’ایرانی حکومت نے اپنی تنہائی کے احساس کے پیش نظر ایک حکمت عملی تیار کرنا شروع کر دی کہ کہیں اس کے دشمن ایک دن اس کی سرزمین پر نہ حملہ کردیں۔‘

اس طرح تہران کے ساتھ منسلک تنظیموں کا نیٹ ورک پھیل گیا اور انھوں نے ایرانی مفادات کے لیے فوجی کارروائیاں کیں۔ ان میں لبنان سے تعلق رکھنے والی حزب اللہ سب سے نمایاں ہے۔ اس تنظیم کو امریکہ اور یورپی یونین نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ آج نام نہاد ایرانی ’مزاحمت کا محور‘ لبنان، شام، عراق اور یمن تک پھیلا ہوا ہے۔

اسرائیل بھی خاموش نہیں بیٹھا رہا اور اس نے ایران اور اس کے اتحادیوں پر حملے کیے اور دیگر کارروائیوں کو انجام دیا لیکن انھوں نے ایسا اکثر تیسرے ممالک میں کیا جہاں وہ ایران نواز افواج سے لڑنے والے مسلح گروہوں کی مالی معاونت اور حمایت کرتا ہے۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان لڑائی کو ’شیڈو وار‘ کے طور پر بیان کیا گیا کیونکہ دونوں ممالک نے اگرچہ ایک دوسرے پر حملے کیے لیکن انھوں نے بہت سے معاملات میں باضابطہ طور پر ان میں اپنی شرکت کا اعتراف نہیں کیا۔

سنہ 1992 میں ایران نواز اسلامی جہاد گروپ نے بیونس آئرس میں اسرائیلی سفارت خانے کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں 29 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے کچھ عرصہ قبل ہی حزب اللہ کے رہنما عباس الموسوی کو قتل کر دیا گیا تھا اور اس حملے کو وسیع پیمانے پر اسرائیل کی انٹیلیجنس سروسز سے منسوب کیا گیا تھا۔

ایرانی جوہری پروگرام کو ناکام بنانا ہمیشہ سے اسرائیل کے لیے کسی جنون سے کم نہیں رہا تاکہ آیت اللہ کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھا جا سکے۔

اسرائیل ایران کے اس موقف پر یقین نہیں کرتا کہ اس کا پروگرام صرف شہری مقاصد کے لیے ہے اور بڑے پیمانے پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس نے امریکہ کے ساتھ مل کر ’سٹکسنیٹ‘ نامی کمپیوٹر وائرس تیار کیا تھا جس نے نئی صدی کی پہلی دہائی میں ایرانی جوہری تنصیبات کو شدید نقصان پہنچایا۔

تہران نے اپنے جوہری پروگرام کے انچارج کچھ اہم سائنسدانوں کے خلاف حملوں کا الزام بھی اسرائیلی انٹیلیجنس پر لگایا۔ سب سے زیادہ قابل ذکر محسن فخری زادہ کا سنہ 2020 میں قتل تھا، جو ایرانی پروگرام کے سب سے سینیئر شخص سمجھے جاتے تھے۔ اسرائیلی حکومت نے کبھی بھی ایرانی سائنسدانوں کی ہلاکت میں اپنے ملوث ہونے کا اعتراف نہیں کیا۔

اسرائیل نے اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایران پر ماضی میں اپنی سرزمین پر ڈرون اور راکٹ حملوں کے پیچھے ہونے کا الزام عائد کیا اور ساتھ ہی ساتھ متعدد سائبر حملے بھی کیے ہیں۔

سنہ 2011 میں شام میں شروع ہونے والی خانہ جنگی بھی ان کی محاذ آرائی کی ایک اور وجہ تھی۔ مغربی انٹیلیجنس ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران نے صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے والے باغیوں کے خلاف ان کی افواج کی مدد کے لیے رقم، ہتھیار اور انسٹرکٹر بھیجے۔ اسرائیل نے اسے اپنے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھا اور اس نے یہ خیال ظاہر کیا کہ پڑوسی ملک شام ان اہم راستوں میں سے ایک ہے جس کے ذریعے ایرانی لبنان میں حزب اللہ کے لیے ساز و سامان اور ہتھیار بھیجتے ہیں۔

امریکی انٹیلیجنس پورٹل سٹریٹفور کے مطابق مختلف اوقات میں اسرائیل اور ایران دونوں نے شام میں کارروائیاں کیں جن کا مقصد ایک دوسرے کو بڑے پیمانے پر حملے کرنے سے باز رکھنا تھا۔

یہ ’شیڈو وار‘ سنہ 2021 میں زمین سے سمندر تک پہنچ گئی۔ اسی سال اسرائیل نے خلیج عمان میں اسرائیلی جہازوں پر ہونے والے حملوں کا الزام ایران پر لگایا جبکہ ایران نے اپنی طرف سے اسرائیل پر بحیرہ احمر میں اس کے جہازوں پر حملہ کرنے کا الزام لگایا۔

اسرائیل پر حماس کا حملہ

گذشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل کے خلاف حملوں اور اس کے جواب میں اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ کے خلاف شروع کی گئی۔

شدید فوجی کارروائی کے بعد تجزیہ کاروں اور دنیا بھر کی حکومتوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ تنازع خطے میں ایک سلسلہ وار ردعمل کو ہوا دے سکتا ہے اور ایران اور اسرائیل کے درمیان کھلے اور براہ راست ٹکر کا سبب بن سکتا ہے۔

لبنان کی سرحد پر مبینہ طور پر اسرائیلی فورسز اور حزب اللہ سے منسلک ملیشیا کے درمیان جھڑپوں میں حالیہ مہینوں میں اضافہ ہوا اور اسی طرح مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی مظاہرین کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔

اس سنیچر تک ایران اور اسرائیل دونوں نے اپنی دشمنی کو بہت حد تک جنگ تک لے جانے سے گریز کیا تھا لیکن تہران کی جانب سے ڈرون اور میزائل حملوں کے آغاز کے ساتھ یہ رخ بدل گیا۔

واعظ کے مطابق ’ستم ظریفی یہ ہے کہ اب بھی کوئی بھی بڑے پیمانے پر تنازع نہیں چاہتا۔ اسرائیل کو غزہ میں حماس کے خلاف تباہ کن جنگ میں داخل ہوئے چھ ماہ ہو چکے ہیں اور اس جنگ نے بین الاقوامی سطح پر اس کی ساکھ پر بڑے پیمانے پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور اسرائیل کو پہلے سے کہیں زیادہ الگ تھلگ کر دیا ہے۔‘

تجزیہ کار نے خبردار کیا کہ حماس کے برعکس ایران ’ایک ریاست ہے اور اس لیے بہت زیادہ طاقتور ہے۔‘

لیکن اسی دوران ’اس کے سامنے بہت سے معاشی مسائل ہیں اور اس کی حکومت داخلی قانونی حیثیت کے بحران کا شکار ہے‘ کیونکہ وہاں خواتین مذہبی پابندیوں کے خلاف کئی مہینوں سے سراپا احتجاج ہیں۔

دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر ہونے والے حملے میں 13 افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے میں تہران کو خاص نقصان پہنچا۔

ہلاک ہونے والوں میں میں نامور ایرانی سینیئر کمانڈر اور پاسداران انقلاب کے بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی اور ان کے نائب بریگیڈیئر جنرل محمد ہادی حاجی رحیمی شامل ہیں۔

ایران کی وزارت خارجہ نے ’حملہ کرنے والوں کو سزا دینے‘ کا عہد کیا اور شام میں اس کے سفیر حسین اکبری نے اعلان کیا کہ جواب ’فیصلہ کن‘ ہو گا۔

سنیچر کے روز ڈرون اور میزائل کے حملے یقیناً طویل عرصے سے جاری ان کی دشمنی میں آخری تیر نہیں ہوں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں