شیریں مزاری نے ایران میں سیاہ برقع کیوں پہنا؟ آخر کار حقیت سامنے آگئی ، سن کر آپ بھی حیران رہ جائیں

لاہور : شیریں مزاری نے ایران میں سیاہ برقع کیوں پہنا؟ ایران میں خواتین کا سر کو ڈھانپ کر رکھنا سرکاری طور پر لازمی ہے، اس قانون کا اطلاق زوار، سیاح مسافر خواتین، غیر ملکی وفود میں شامل خواتین پر بھی ہوتا ہے، اسی لیے وفاقی وزیر کو بھی برقع پہننا پڑا۔ تفصیلات کے مطابق خاتون صحافی عفت حسین رضوی نے شیریں مزاری کے ایران میں سیاہ برقع پہننے سے متعلق کیے جانے والے سوالات کا جواب دیا ہے۔
عفت حسین رضوی بتاتی ہیں کہ زیارات یا سیر و سیاحت کی غرض سے ایران کا سفر کرنے والی خواتین کو علم ہے کہ ایران میں خواتین کا سر کو ڈھانپ کر رکھنا سرکاری طور پر لازمی ہے، اس قانون کا اطلاق زوار، سیاح مسافر خواتین، غیر ملکی وفود میں شامل خواتین پر بھی ہوتا ہے۔
تاہم اس کے لیے ضروری نہیں کہ سیاہ برقع ہی پہنا جائے، تہران میں خواتین نہایت ماڈرن دیدہ زیب مغربی لباس کے اوپر سکارف لیتی ہیں جسے ایسے انداز سے پہنا جاتا ہے کہ خاتون کے بال بھی نظر آئیں اور سر پر سکارف بھی رہے۔

یہ معاملہ صرف ایران میں ہی درپیش نہیں، دبئی کی شیخ زاید الکبیر مسجد میں مسلم اور غیر مسلم خواتین جا سکتی ہیں مگر مسجد کے آداب کے مطابق عبایا پہننا لازمی ہے، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ اسرائیل میں دیوار گریہ کی زیارت کرنے والے افراد سر پر یہودیوں کی مخصوص ٹوپی ’کپاہ‘ ضرور پہنتے ہیں چاہے وہ عالمی لیڈرز ہی کیوں نہ ہوں، اس مذہبی اقدار کا خیال رکھا جاتا ہے، ویٹی کن جانے والے سیاحوں کو ہدایت دی جاتی ہے کہ ایسا لباس پہنیں جس سے عریانی نہ جھلکتی ہو۔
یہ ایک مذہبی مقام کو خراج عقیدت پیش کرنے کا انداز ہے، جس میں کوئی قباحت ہے نہ ہی برائی۔ عفت رضوی مزید کہتی ہیں کہ ڈاکٹر شیریں مزاری نے سیاہ برقع دورہ ایران میں صرف ایک موقع پر پہنا، جب وہ شہر مشہد میں آستان قدس رضوی کی حدود میں موجود تھیں۔ یہ شیعہ مسلمانوں کے آٹھویں امام علی رضا کا روضہ ہے، جسے ایران میں اس حد تک روحانی اہمیت حاصل ہے کہ اس شہر کو مشہد مقدس کہا جاتا ہے۔
عمران خان نے اپنے دورے کا آغاز اسی مشہد مقدس سے کیا جہاں دورے کے پہلے دن پاکستانی وفد کو روضہ امام علی رضا کی زیارت کرائی گئی۔ روضے کے احاطے میں ہی موجود قرآن پاک کے قدیم نسخوں کے میوزیم لے جایا گیا جبکہ روضے کے متولی احمد مروی سے وفد کی ملاقات کرائی گئی۔ پاکستانی وفد میں دو خواتین شامل تھیں، ایک ڈاکٹر شیریں مزاری اور دوسری ایران میں پاکستانی سفیر رفعت مسعود، دونوں ہی خواتین نے روضہ امام رضا کے اس دورے پر سیاہ برقع زیب تن کیا، جبکہ دورہ ایران کے دیگر مواقع پر یہ دونوں خواتین پاکستانی لباس یعنی دوپٹے، قمیض شلوار اور سکارف میں نظر آئیں۔
ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی کے مزار پر بھی برقع پہننے کی پابندی نہیں، ہاں مگر روضہ امام علی رضا کی زیارت کرنے والی خواتین کو سخت شرعی پردے کے تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہاں روضے میں داخل ہونے سے قبل سکیورٹی چیک پوائنٹ موجود ہیں، جہاں خواتین کے سیکشن میں موجود خواتین رضاکار باڈی سرچ کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھتی ہیں کہ خاتون نے مکمل حجاب کر رکھا ہے یا نہیں۔
جن خواتین کے حجاب میں کمی محسوس ہو انہیں اسی چیک پوائنٹ پر سیاہ یا پھول دار پرنٹ والا عبایا اور برقعے عارضی طور پر دیے جاتے ہیں جو روضے سے نکلتے وقت واپس کرنے پڑتے ہیں۔ روضے کے اندر اگر یہ چادر سر سے اتر جائے تو انتظامیہ کی رضاکار خواتین نجانے کہاں سے نمودار ہوجاتیں ہیں اور کھلے سر کی جانب اشارہ کر کے کہتی ہیں ’خانم ! حجاب‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں