ملکی سلامتی کے ادارے اور حکومت پاکستان کو مختلف بحرانوں سے نکالنے کے لیے مسلسل اور طویل جدوجہد میں ہیں جبکہ دوسری طرف پاکستان اور اس کے نظام کو بحران زدہ کرنے والی اندرونی و بیرونی قوتیں خراب سے خراب تر صورتحال پیدا کرنے پہ تُلی ہیں، زور دونوں اطراف سے برابر لگایا جارہا ہے، موجودہ حکومت کا سلوگین انقلاب اور تبدیلی ہے، نامور معیشت دان و نوبل لارئیٹ ملٹن فریڈ کا کہنا ہے کہ “انقلابی تبدیلیوں کی بات کرتے رہنا فائدہ مند ہے اگر اسے فوراً قبول نہ بھی کیا جائے مگر اس سے ایک مثالی ہدف ابھر کے سامنے آجاتا ہے اور جب کبھی بھی حالات سازگار ہوجائے تو لوگوں کے زہن پہلے سے ہی تیار ہوتے ہیں” پاکستان میں قرضوں کا جو جال بچھایا گیا وہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی، قرضہ جو ڈالروں میں تھا وہ تو فارن ایکسچینج تک ہی رہا یا اوپر سے اوپر ہڑپ ہوگیا اور عوام کی ضروریات نوٹ چھاپ کر پوری کی جاتی رہیں جس سے افراط زر اور مہنگائی میں ریکارڈ توڑ اضافہ ہوتا رہا، 2008 کے مقابلے میں آج مختلف اشیاء کی قیمتوں سے مقابلہ کرلیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ساری دولت ایک فیصد طبقے کے ہاتھوں میں آگئی، عام لوگ دو وقت کی روٹی کی خاطر اپنے لخت جگر بیچنے پہ مجبور ہوگئے، لوگوں نے مجبوراً اپنے گردے تک بیچے، ایسے ایک دو نہیں سینکڑوں واقعات سامنے آچکے ہیں کہ غربت سے تنگ آکر پورے پورے خاندان اجتماعی خودکشی کرکے اس ظالم سماج سے چھٹکارا پاگئے، لوگ غربت و بھوک سے مر رہے ہیں جب بھوک سے تنگ آجائیں گے تو ایسے اٹھیں گے کہ سب کچھ بہا لے جائینگے مگر ایک فیصد مکار و کرپٹ ٹولے کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا تب ہی ان سب کی جائیدادیں، کاروبار، بینک بیلینس پاکستان سے باہر منتقل ہیں، اکثر و بیشتر اسمبلی فلور و میڈیا پر اس بات کا تذکرہ رہا ہے کہ پاکستانیوں کے تقریباً 200 بلین ڈالر بیرونی بینکوں میں محفوظ ہیں، یہ سب کیا ہے؟ سیدھا سیدھا کالا دھن ہے، ویسے بھی بدعنوانی، رشوت ستانی، کرپشن پاکستانی معیشت و معاشرے کی نہ صرف اہم خصوصیات بلکہ بنیادی جز کا درجہ پا گئے ہیں، موجودہ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کے کچھ افراد اس سے چھٹکارا پانے کے لیے سنجیدہ ہیں اور ایک لمبے عرصے سے اس پر پرمغز بحث جاری ہے اب اس کے خاتمے میں بہت سے افراد تو واقعی سنجیدہ نظر آتے ہیں جبکہ بہت سے افراد محض معاملات کو طول دینے میں لگے ہیں جس میں وہ ابتک تو کافی حد تک کامیاب ہی نظر آتے ہیں، پاکستانی معیشت کا اصل مسئلہ رشوت، بدعنوانی، بھتہ خوری، بدامنی، کرپشن اور کمیشن خوری ہی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی صفوں میں بھی اس ایک فیصد طبقے کے افراد شامل ہوگئے ہیں جن کو کرپشن و بدعنوانی کی صفائی کرتے دیکھنے سے بس یہی تصویر سامنے آتی ہے گویا کوئی شخص جس شاخ پہ بیٹھا ہو اسی کو کاٹ رہا ہو مگر اب یہ شاخ اس کی کوششوں سے کٹنے والی نہیں، یہ پورے کا پورا درخت تو اکھڑ سکتا ہے مگر اب شاخیں نہیں کٹنے والیں، اہم بات یہ ہے کہ اس کرپٹ نظام کا سب سے اہم کردار بدعنوان و نااہل سیاسی غلام بیوروکریٹس ہیں، صرف ایک لیاقت قائمخانی ہی کی مثال لے لیجئے کہ جس کا باتھ روم بھی پورے پورے محلوں کی مالیت کے برابر ہے اور دلچسپ پہلو دیکھیں کہ موصوف کو ڈاکٹر عشرت العباد نے ایوارڈ سے نوازا اور صدر پاکستان آصف زرداری صاحب نے ستارہ امتیاز سے شکریہ ادا کیا آخر کام بھی چھوٹا نہیں تھا کراچی جیسے میٹروپولیٹن سٹی کے تمام پارکوں کو موئن جو دڑو بنا کر آثار قدیمہ کی سائٹیں دریافت کروادی ہیں وہ بھی بنا محنت کے، بیوروکریٹس میں فقط لیاقت قائمخانی ہی کرپٹ نہیں بلکہ آوے کا آوہ بگڑا ہوا ہے جن کا کرپٹ سیاستدانوں اور جاگیرداروں کیساتھ نہ صرف ورکنگ ریلیشن ہے بلکہ ایک ہی تھالی کے چٹھے بٹھے ہیں اور میثاق جمہوریت لندن کے بعد سے تو میڈیا کے بھی بہت سے افراد ان کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پہلے پہل تو الیکشن 2018 کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کی، پھر ہر کرپشن کے الزام میں گرفتار شخص کو انتقامی کاروائی کا ڈھونگ رچا کر کلین چٹ دینے کی کوشش کی، احتسابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے انتقامی کاروائی کا تاثر دیکر کرپٹ نظام کے تحفظ کی کوشش کی، جب تک یہ نظام ٹھیک نہیں ہوگا تب تک معاملہ یونہی لٹکتا رہیگا، غریب غریب سے غریب تر ہوتے جائینگے اور امیر امیر سے امیر تر، عرصہ دراز سے ایک ہی سوال عوام کے زہنوں میں گھوم رہا ہے کہ کیا کبھی یہ نظام ٹھیک ہوگا؟ آخر یہ درستگی کی طرف جائیگا کیسے؟ ابتک کی تاریخ سے مختلف قوموں کے حال سے صرف ایک ہی جواب ملتا ہے کہ جب تک فوری و سخت ترین سزا کا عملی نفاذ نہیں ہوگا تب تک یہ نظام یونہی چلتا رہیگا خواہ کتنی حکومتیں بدلی جائیں یا چہرے، ٹیڈ گرانٹ Unbroken thread میں لکھتے ہیں کہ “پاکستان جیسے ملک میں حکمران ایک کے بعد دوسری طرز حاکمیت میں جھول رہے ہیں جمہوریت کے بعد آمریت اور پھر واپس جمہوریت، یہ کاوش وہ ان تضادات سے نکلنے کے لیے کرتے ہیں جنکا ان کے نظام کو سامنا ہے لیکن ہر طرز حاکمیت میں وہ سماجی اور معاشی صورتحال کو مستحکم کرنے میں ناکام رہیں گے” بات سیدھی سی ہے کہ ہمیں دو قانون کی جگہ ایک ہی قانون اپنانا ہوگا، صلاح الدین تو منہ چڑانے کے جرم میں سزائے موت کا حقدار ٹھہرا جبکہ شاہ رخ جتوئی سرعام قتل کرکے بھی پرتعیش زندگی گزارتا رہا، عدلیہ کا حال یہ ہے کہ غریب چکر کاٹ کاٹ کر گھٹنوں کا پانی ختم کروا بیٹھتا ہے مگر پیشی پہ پیشی کا سلسلہ نہیں رکتا جبکہ بات امیروں کی ہو تو “سارے قانون تمہارے لیے ہیں” کے مصداق دو ہفتے میں بھی فیصلہ آجاتا ہے دو سال پہلے کی بات ہے سندھ میں میڈیکل کا پرچہ آوٹ ہوجانے کا سکینڈل سامنے آیا عوام کا شور دیکھ کر وزیراعلیٰ نے بھی نوٹس لے لیا کیونکہ ایسا بھی سامنے آیا کہ ایک ایک خاندان سے کئی کئی افراد سلیکٹ ہوے تھے مگر سندھ ہائیکورٹ کے جج کی ہمت اور ڈھٹائی دیکھیں دو ہفتوں میں کیس کو نمٹا کر امیروں کے حق میں دیدیا ان سب میں تمام کے تمام امیروں کے بچے تھے، اب اندازہ کریں کہ وہ پاس آوٹ ہوکر عوام کا کیسا علاج کرینگے، جب تک یہ تضادات ختم نہیں ہونگے تب تک پاکستان میں استحکام کبھی نہیں آسکتا۔
نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔