یہ میرا زاتی مشاہدہ ہے کہ چاے کی مٹھاس اور لفظوں کی مٹھاس انسان کو قدآور بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اب اگر کوئی کہے کہ یہ کیا بار بار لکھاری اور چائے کی رٹ لگا رکھی ہے، کوئی ایک مثال تو دو۔ اس کی بہترین مثال لاہور کا چائے خانہ ہے جو پاک ٹی ہاوس کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جسے فنون لطیفہ سے منسلک معززین بطور بیٹھک استعمال کیا کرتے تھے۔ پاک ٹی ہاوس کو رونق بخشنے والی سینکڑوں علمی و فکری اور ادبی و تخلیقی شخصیات ہیں۔ وہ منظر بھی کیا خوب ہوتا ہوگا جب چائے کی پیالیاں ان تخلیق کاروں کے سامنے پیش کی جاتی ہوں گی اور وہیں بیٹھ کر چائے نوش کرتے ہوں گے۔
وہیں سے اردو ادب نے معراج کی کتنی منازل طے کی ہیں۔ اپنے ڈیرہ اسماعیل خان ہی کی مثال لے لیں۔ بیٹھک ہو یا جمیل کا ہوٹل، گول ہوٹل ہو یا کالے کا ہوٹل آپ کو شام کے ڈحلتے سائیوں میں ڈیرہ کے تمام لکھاریوں کی کہکشاں اپنی کرنیں بکھیرتی نظر آئیں گی۔
ان چائے کے ہوٹلوں پر کھل کہ نظریاتی بحث و مباحثہ بھی ہوتا ہے اور علمی اور ادبی کاموں پر تنقید و توصیف بھی ہوتی ہے اور مستقبل کی ادبی محفلوں کا پروگرام بھی ترتیب پاتا ہے۔ اب اللہ جانے کہ چائے کے پیسے دینے کا کیا سلسلہ ہوتا ہے۔ نقد ہوتا ہے یا ادھار ؟
یہ تو ثنا اللہ شمیم صاحب، خوشحال ناظر یا طاہر شیرازی صاحب ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ بہرحال کسی بھی قسم کے لکھاری کو گھر پر یا ہوٹل کی میز پر رکھی چائے کسی دلفریب گلدستہ کی مانند لگتی ہے۔جس کی خوشبو اس کے رگ و پہ میں اتر جاتی ہے۔
خدا کرے چائے اور لکھاری کا ساتھ تادم آخر قائم و دائم رہے اور چائے سے چاہ اور چاہ سے چائے کا سلسلہ جاری رہے۔ اکثر اوقات یوں ہوتا ہے کہ لکھاری کا رواں قلم چلتے چلتے اڑیل گھوڑی سا اڑی کرنے لگتا ہے تو زہن پہ گرد کے ہیولے چھا جاتے ہیں اور کچھ سجھائی نہی دیتا۔
زرخیز زہن پہ چھائی سستی بھگانے اور تخیل پہ تنے جالوں کے بیچ و بیچ شکار کی مانند اٹکی نیم جان تعمیری سوچوں کو آزادی دلوانے کے لیے خاکستری خوشبو دار گرما گرم چائے کی چھوٹی چھوٹی چسکیاں بھرنا کارگر ثابت ہو سکتا ہے
چاہیں تو آزما کے دیکھ لیں۔ چائے بلاشبہ ایک لکھاری کے تخیل کو مہمیز کرتی ہے، اس کا تخیل جب خوشبو اڑاتی چائے کی بھاپ سے گلے ملتا ہے تو کاغذ پر لفظ ایک نئی دھن گنگنانے لگتے ہیں ۔ایک انوکھی اور لاجواب دھن ۔کسی بھی قاری کو جب کتاب کھولتے ایک مسحور کن خوشبو معطر کرتی ہے اس سے زیادہ اصل خوشبو اس کی فکر ، خیالات، متن اور تحریر کی ہوتی ہے۔
الفاظ و خیالات اورتحریر کی روانی کی ایسی دل آویز خوشبو دل و جاں میں سما جاتی ہے جس کا بیاں لفظوں میں ممکن نہیں۔ کیونکہ جیسیایک لکھاری کے قلم میں موجود روشنائی صاف کاغذ پر لفظوں کی صورت تحریر لکھتی ہے ،وہیں چائے لکھاری کے دل و دماغ میں سوچوں کی روشنائی کا کام سر انجام دیتی ہے اور نت نئے خیالات اس کے خالی ذہن میں بھر دیتی ہے۔
یہی خوشبو ہر لفظ اپنے اندر سمو دیتا ہے اور جب بھی وہ تحریر پڑھنے بیٹھیں تو الفاظ پھر سے خوشبو بکھیرنے لگتے ہیں۔ لکھاری اور چائے کا کپ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں -چائے ایک سوغات بھی ہے اکثر لکھاریوں سے ملاقات ہو تو وہ عقیدت میں چائے جیسے مشروب کو خدمت کے طور پرپیش کرتے ہیں۔
موجودہ دور کے لکھاریوں کے لیے چائے ان کے لیے ایک دیوانگی کی حیثیت رکھتی ہے- اگر ہم جیسے لوگ بھی لکھاریوں سے ملاقات کو جائیں تو وہ بھی چائے جیسے مشروب کو ہم جیسے کی خدمت کے لیے اولین ترجیح دیتیہیں۔ میری نظر میں ایسا کوئی لکھاری نہیں جس سے بھی میں ملا ہوں تو اس نے میزبان کی حیثیت سے مہمان کے لیے چائے نہ رکھی ہو، بعض لکھاری سرے سے چائے ہی نہیں پیتے۔
اگر شکوہ کیا جائے تو با آواز بلند فرماتے ہیں کہ پینا پلانا بری بات ہے مذید فرماتے ہیں کہ ضروری تو نہیں ہر کوئی آپ کی طرح چائے کے نشے میں مبتلا ہو کچھ لوگ اس کی بہن یعنی کافی کے عشق میں بھی تو گرفتار ہو سکتے ہیں۔
پھر ایسی بات کرتے ہیں کہ شرم سے سر ہی جھک جاتا ہے، دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہیں ۔ عمرانی صاحب! کافی پینے کا ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ اس میں بسکٹ یا رس ڈبو کر نہیں کھایا جاتا ، یہ چونچلے صرف چائے والے ہی کرتے ہیں۔ اونٹوں کے کاروانوں سے لیکر سیاسی انقلابوں تک۔
دوستوں کی بیٹھکوں سے ادبی محفلوں تک چائے ہمیشہ انسانوں کی ساتھی رہی ہے۔ چائے کو معاشرے میں ایک اہم مقام حاصل ہے زندگی چاہے کٹھن راستوں پر گامزن ہو یا پھر خوشیوں کے ہنڈولے جھول رہی ہو۔ زندگی کے کٹھن راستے سیکیسے باہر نکلا جائے یا پھر خوشیوں سے کیسے لطف اندوز ہوا جائے
اس بات پر غور و خوض کے لئے بڑے اہتمام سے چائے کی میز سجائی جاتی ہے۔ ذاتی زندگی کے اہم معاملات ہوں یا پھر وطن عزیز کے اہم امور کے فیصلے ہوں انھیں باہمی مشورہ سے چائے کی میز پر ہی حل کیا جاتا ہے۔ اور تو اور بخار ہو یا سر درد، برسات کا موسم ہو یا سردیوں کی شامیں، گرمی کا زور ہو یا اندرونی گرمی، امتحانات میں راتوں کو جاگنے کے لیے نیند بھگانی ہو یا لکھنے کے لیے تخیل کی ضرورت ہو یا تھکن مٹانی ہو چائے کا ایک کپ ہی کافی ہوتا ہے۔
اگر آپ اس مضمون کے قاری ہیں تو کبھی چائے کا ایک کپ لے کر تنہائی میں بیٹھیے اور پرانی یادوں کو ذہن میں تازہ کیجئے اچھے دوستوں کو یاد کیجئے، خوشگوار لمحات کو یاد کیجئے، چند لمحات اپنے ساتھ جی لینے سے آپ کواپنی زندگی میں میں نیا جوش اورولولہ محسوس ہوگا۔اور زندگی کی گہماگہمی میں اپنی روزمرہ معمولات زندگی میں تازہ دم ہو کر واپس آئیں گے۔
بقول عبداللہ یذدانی صاحب کے کہ چائے کو شڑپ سے یا آواز نکال کر پینے سے اس کے ذائقہ کا فورا پتہ چل جاتا ہے۔ تو ہو جائے ایک پیالی شڑپ کے ساتھ !
چھوڑو کیا رکھا ہے دل کی بچگانہ باتوں میں
آ چائے پیتے ہیں سردیوں کی شاموں میں