کررونا وائرس پھیلاؤ کی اہم وجہ مذہبی ہٹ دھرمی (ساجد خان)

آج جب کررونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہر طرف سے اموات کی خبریں آ رہی ہیں تو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ آخر اس وباء کی اس تیزی سے پھیلنے کی وجوہات کیا ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ اموات اٹلی میں ہو رہی ہیں جہاں مرنے والوں کی تعداد گیارہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں، آخر اس کی وجہ کیا ہے۔

اٹلی میں جب کررونا وائرس سے اموات کا سلسلہ شروع ہوا تو حکومت نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس میں تعلیمی اداروں کے ساتھ مذہبی مقامات کو بھی بند کرنے کا حکم دیا گیا مگر اس اعلان پر اٹلی کے مذہبی رہنماؤں نے شدید احتجاج کرتے ہوئے حکومت کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا اور چرچ باقاعدہ کھلے رکھنے پر بضد رہے، جس پر حکومت نے مجبور ہو کر عبادت گاہوں کو لاک ڈاؤن سے استثنیٰ قرار دے دیا۔

اٹلی کیونکہ دنیا بھر کی عیسائیت کا مرکز سمجھا جاتا ہے اس لئے عیسائی مذہبی رہنماؤں کو خدشہ تھا کہ اس سے عیسائیت پر حرف آئے گا،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ ہفتے تک اٹلی میں پچاس سے زائد پادری کرونا وائرس کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔

اب جہاں پادری کررونا وائرس سے متاثر ہوئے تو ہر پادری نے کم از کم دو چار سو افراد کو وائرس ضرور منتقل کیا ہو گا۔

ہندوستان میں ایک سکھ مذہبی رہنما کی کررونا وائرس سے موت کے بعد اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ تقریباً چالیس ہزار افراد اس مذہبی رہنما سے ملاقات کر چکے ہیں، جس کے بعد بیس دیہاتوں کو مکمل لاک ڈاؤن کر دیا گیا۔

سعودی عرب اور ایران دونوں ممالک میں ہی مذہبی مقامات ہیں اور بدقسمتی سے ان دونوں ممالک کی وجہ سے ہی کررونا وائرس دوسرے ممالک میں پھیلا کیونکہ دنیا بھر سے مسلمان یہاں آتے ہیں۔ یہاں دونوں ممالک کی ہٹ دھرمی بھی سامنے آئی ہے کہ دونوں ممالک نے کررونا وائرس کی موجودگی کو چھپانے کی کوشش کی اور کوشش کی کہ مذہبی مقامات کھلے رکھے جائیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کررونا وائرس دوسرے ممالک میں بھی پھیلتا چلا گیا، کل ترکی کے وزیر داخلہ نے سعودی عرب پر الزام لگایا کہ سعودی عرب کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے ترکی میں کررونا وائرس پھیلا۔

پاکستان کی اگر ہم بات کریں تو یہاں کرونا وائرس تقریباً ہر ملک سے ہی آیا۔ ایران، سعودی عرب، چین، عمان، اٹلی، امریکہ وغیرہ وغیرہ گو کہ تعداد بہت کم تھی اور معجزانہ طور پر کرونا وائرس کا پھیلاؤ اور اموات بھی کم تھیں جسے بہتر حکمت عملی سے کنٹرول کیا جا سکتا تھا لیکن یہاں بھی مذہبی طبقہ کی ہٹ دھرمی نے کرونا وائرس پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا حالانکہ وہ حالات دیکھ رہے تھے۔

خانہ کعبہ سے لے کر مسجد نبوی اور نجف سے کربلا تک کی بندش کا بھی علم تھا مگر اس کے باوجود ہمارا مذہبی طبقہ سمجھتا رہا کہ کررونا وائرس ایک عذاب ہے اور عذاب مسلمانوں پر اثر انداز نہیں ہوتا لہذا باجماعت نمازیں جاری رہیں، جلوس و مجالس منعقد ہوتے رہے، یہاں تک کہ لاہور میں تبلیغی اجتماع بھی منعقد کیا گیا جس میں دنیا بھر سے ہزاروں مبلغین سمیت لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ کررونا وائرس جب تک غیر مسلم تک محدود تھا تب تک یہ عذاب تھا اس لئے مذہبی حلقہ نے اس وائرس کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا اور جب کررونا وائرس مسلمان ممالک میں داخل ہوا تو وہ عذاب سے آزمائش کی شکل اختیار کیا گیا اور اس آزمائش کا یہ حل نکالا گیا کہ سب مذہبی افراد اکٹھے ہو کر توبہ استغفار کریں حالانکہ جانتے تھے کہ یہ وباء ایک شخص سے دوسرے شخص میں نہایت تیزی سے منتقل ہوتی ہے مگر مذہبی افراد کی جھوٹی انا اور صرف اپنا مذہب سچا ہونے کے غرور نے یہ تصور کرنے ہی نہیں دیا کہ مذہبی افراد کو بھی کررونا وائرس ہو سکتا ہے۔

آج تبلیغی ارکان کی وجہ سے فلسطین میں کررونا وائرس منتقل ہو چکا ہے جبکہ پاکستان میں بہت سے تبلیغی ارکان وباء کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں پہلی ہلاکت بھی تبلیغی جماعت کے ایک مقامی سربراہ کی ہوئی ہے جس نے کچھ عرصہ قبل ہندوستان کے تبلیغی اجتماع میں شرکت کی تھی۔

گزشتہ جمعہ کو جس طرح مذہبی افراد نے جہالت کا ثبوت دیا کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی سب باجماعت نماز پڑھنے کی ضد میں اکٹھے ہوتے رہے حالانکہ جانتے تھے کہ ریاست یہ سب مذہب دشمنی میں نہیں کر رہی بلکہ انسانیت کی حفاظت کے لئے اقدامات ہیں۔

جب خانہ کعبہ بند ہو سکتا ہے، مسجد نبوی بند ہو سکتی ہے اور جب کربلا بند ہو سکتا ہے تو پاکستان میں مساجد بند ہونے سے اسلام کون سا خطرے میں پڑ جانا تھا۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ مذاہب اس ہٹ دھرمی کی اجازت دیتے ہیں بلکہ تمام مذاہب انسانیت کو مذہب سے افضل قرار دیتے ہیں۔ بس مذاہب کے خود ساختہ ٹھیکیدار اسے ذاتی جاگیر سمجھ بیٹھے ہیں اور ہر ایک کو مذہب کا دشمن گردانتے ہیں گویا اسلام مکہ و مدینہ میں نہیں بلکہ پاکستان کی کسی مسجد میں نازل ہوا تھا۔

اسلام نے ایک انسان کی زندگی حرمت کعبہ سے افضل قرار دی گئی ہے لیکن یہاں انسانی جانوں کی پرواہ کئے بغیر اپنی ضد پوری کرنے کا شوق ہے حالانکہ انہی لوگوں کو خود ہلکا سا بخار ہو تو مسجد بھول جاتے ہیں اور نمازیں گھر میں ادا کرتے نظر آتے ہیں لیکن جب دوسروں کی زندگی کا سوال ہو تو ہٹ دھرمی پر اتر آتے ہیں، اس سے یہ بات سمجھنا بالکل بھی مشکل نہیں ہے کہ مذاہب اور مذہبی رہنماؤں میں واضح تضاد ہے۔ جو تعلیمات مذاہب دیتے ہیں اس کے مقابلے میں مذہبی رہنماؤں نے اپنی انا اور ضد کو فوقیت دے کر پوری دنیا کو خطرے میں مبتلا کر دیا۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ طبقہ اربوں انسانوں کے لئے کتنا خطرناک ثابت ہوا ہے جو صرف اپنی ضد کی خاطر کسی قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔ دنیا کو جہاں کررونا وائرس جیسی وباء سے اجتماعی طور پر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے وہیں مذہبی جہالت اور ضد کے خلاف بھی مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ طبقہ ہر وباء سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں