حدیث عنوان بصری: امام جعفر صادقؑ کا روحانی نسخہ (ڈاکٹر سید نیاز محمد ہمدانی)

یہ مضمون حدیث عنوان بصری کا اردو ترجمہ ہے۔ عنوان بصری چورانوے سالہ بزرگ تھے جن کی درخواست پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے یہ رہنمائی ارشاد فرمائی۔ علامہ سید علی قاضی رضوان اللہ علیہ جو عرفانی تربیت میں بے مثال تھے اور علامہ طباطبائی اور آیت اللہ بہجت جیسے عرفاء کے استاد تھے۔ وہ اپنے زیر تربیت افراد کو پہلا درس ہی یہ دیتے تھے کہ حدیث عنوان بصری میں دی گئی ہدایات کو لکھ کر اپنے پاس رکھیں اور دن میں کئی بار پڑھا کریں۔

علامہ مجلسی کہتے ہیں کہ میں نے شیخ بہائی قدس اللہ روحہ کے ہاتھ کی تحریر دیکھی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: شیخ شمس الدین محمد بن مکی (شہید اول) کہتے ہیں کہ میں نے شیخ احمد فراہانی رحمہ اللہ کی تحریر سے نقل کیا ہے جو انہوں نے عنوان بصری سے روایت کی ہے۔ عنوان بصری جنہوں نے چورانوے برس عمر پائی کہتے ہیں کہ میں کئی سال تک مالک بن انس کے ہاں آتا جاتا تھا۔پھر جب امام جعفر صادق علیہ السلام مدینہ تشریف لائے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں چاہتا تھا کہ جس طرح مالک بن انس سے علم حاصل کرتا ہوں اسی طرح ان سے علم حاصل کروں۔ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا: میں (حکومت کو) مطلوب رہتا ہوں، اس کے علاوہ دن اور رات کے اوقات میں میرے بہت سے اوراد ہوتے ہیں لہٰذا تم میرے اوراد میں خلل نہ ڈالا کرو اور جیسے مالک بن انس سے علم حاصل کر رہے تھے انہیں سے علم حاصل کرتے رہو۔ میں اس بات سے غمگین ہوا اور ان کے گھر سے باہر چلا گیا اور اپنے دل میں سوچنے لگا کہ اگر انہیں مجھ میں کوئی خیر اور بھلائی نظر آئی ہوتی تو اس طرح مجھے اپنے پاس آنے اور علم حاصل کرنے سے نہ روکتے۔ پھر میں مسجد نبوی میں داخل ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام کیا۔ اگلے دن پھر میں آنحضرت کے روضہ مبارک پر حاضر ہوا اور دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے دل کو میری طرف پھیر دے اور مجھے ان سے وہ علم میں سے عطا فرما جس سے میں تیری صراط مستقیم کی طرف ہدایت پا سکوں۔پھر میں غمگین حالت میں اپنے گھر واپس چلا گیا اور چونکہ میرے دل میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی محبت گھر کر چکی تھی، میں مالک بن انس کی طرف نہیں گیا۔ پھر میں اپنے گھر میں بند ہو کر رہ گیا اور صرف فرض نماز ادا کرنے کے لئے گھر سے نکلتا تھا۔ یہاں تک کہ میرے صبر کا پیالہ لبریز ہو گیا۔ ایک دن جب میرا دل بہت تنگ ہوا تو میں نے جوتے پہنے اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے گھر کی طرف چل پڑا۔ میں اس وقت عصر کی نماز سے فارغ ہو چکا تھا۔ جب میں ان کے گھر کے دروازے کے سامنے آیا اور اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی تو ان کا ایک خادم باہر نکلا اور مجھ سے کہا: تمہاری کیا حاجت ہے؟ میں نے کہا: شریف (یعنی امام جعفر صادق علیہ السلام ) پر سلام ہو۔ خادم نے کہا وہ اپنے مصلا پر کھڑے نماز ادا کر رہے ہیں۔ پس میں ان کے دروازے کے سامنے بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر گزری کہ خادم باہر نکلا اور بولا: اللہ کی برکت کے ساتھ داخل ہو جائو۔ پس میں داخل ہوا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: بیٹھ جائو اللہ تمہاری مغفرت کرے۔ پس میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ نے تھوڑی دیر کے لیئے اپنا سر جھکایا، پھرآپ نے سر اٹھایا اور مجھ سے پوچھا: تمہاری کنیت کیا ہے؟ میں نے کہا: ابو عبد اللہ۔ آپ نے فرمایا: اے ابو عبداللہ! اللہ تمہاری کنیت کو قائم رکھے اور تجھے توفیق عطا فرمائے۔ اس پر میں نے دل میں کہا کہ اگر ان کی زیارت اور ان کو سلام کرنے کے نتیجہ میں اس دعا کے سوا مجھے کچھ اور نہ بھی ملے تو یہی بہت زیادہ ہے۔ پھر آپ نے سر اٹھایا اور فرمایا: تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ میں نے سر اٹھایا اور کہا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ آپ کے دل کو میری طرف پھیر دے اور آپ کے علم سے مجھے عطا فرمائے اور مجھے امید ہے کہ شریف کے بارے میں (یعنی آپ کے بارے میں) اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کر لی ہے۔ پس آپ نے فرمایا: اے ابو عبد اللہ! علم سیکھنے سکھانے سے نہیں آتا، وہ تو ایک نور ہے جو اس شخص کے دل میں روشن ہوتا ہے جسے اللہ تبارک و تعالی ہدایت دینا چاہے۔

پس اگر تم علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنے دل میں بندگی کی حقیقت کی طلب پیدا کرو، اور علم پر عمل کرنے کے ذریعے علم حاصل کرو اور سمجھو، اللہ تمہیں سمجھ عطا کرے۔ میں نے کہا: اے شریف! تو آپ نے فرمایا: کہو اے ابوعبد اللہ۔ میں نے کہا: یا ابا عبداللہ! عبودیت کی حقیقت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تین چیزیں: ایک یہ کہ اللہ نے جو کچھ بندے کو دیا ہے بندہ اپنے آپ کو اس کا مالک نہ سمجھے۔ اس لئے کہ عبد (یعنی بندہ) کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔ وہ مال کو اللہ کی ملکیت سمجھتے ہیں اور اسے اسی مقام پر رکھتے ہیں جس کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ بندہ اپنے معاملات کی تدبیر نہ کرے اور اس کی ساری توجہ ان چیزوں میں ہو جن کے کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور جن کے کرنے سے اللہ نے روکا ہے۔ جب بندہ اپنے آپ کو ان چیزوں کا مالک نہیں سمجھتا جو اللہ نے اس کے سپرد کر رکھی ہیں تو پھر اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اس کے لیئے آسان ہو جاتا ہے۔ اور جب بندہ اپنے معاملات کی تدبیر اللہ پر چھوڑ دیتا ہے تو دنیا کی مصیبتیں اس پر آسان ہو جاتی ہیں۔ اور جب بندہ اپنی توجہ ان چیزوںپر مرکوز رکھتا ہے جن کے کرنے کا اللہ نے حکم دیا اور جن سے اللہ نے منع کیا ہے تو ان سے اسے فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ لوگوں کے ساتھ بحث اور جھگڑا کرے یا ان پر اپنی برتری جمائے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو ان تین باتوں سے نواز دے تو دنیا، ابلیس اور لوگ اس کے لیئے آسان ہوجاتے ہیں۔ وہ دنیا کو فخر و تکبر کے لئے اور دوسروں کے سامنے مال و دولت کی کثرت کے مظاہرے کے لیئے طلب نہیں کرتا، اور جو عزت لوگوں کے پاس ہے اس کی بھی طلب نہیں کرتا اور اپنی زندگی کے ایام کو باطل میں نہیں گزارتا۔ پس یہ تقویٰ کا پہلا درجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

تِلْکَ الدَّ ارُ الْآ خِرَۃِ نَجْعَلُھَا لِلَّذِ یْنَ لا یُرِیْدُ وْنَ فِیْ الْاَرْضِ عُلُوّاً وَلا فَسَاداً وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ

ترجمہ: آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لیئے بنائیں گے جو اس دنیا میں برتری اور فساد کے طالب نہیں ہوتے اور عاقبت متقین کے لئے ہے۔ (قصص83)

میں نے کہا یا ابا عبد اللہ! مجھے نصیحت فرمائیے۔ آپ نے فرمایا: میں تجھے نو باتوں کی نصیحت کرتا ہوں۔میری یہ نصیحت ان سب لوگوں کے لئے ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے پر چلنے کا ارادہ رکھتے ہوںاور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ تمہیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان میں سے تین کا تعلق نفس کی ریاضت سے ہے، تین کا تعلق حلم سے ہے اور تین کا تعلق علم سے سے۔

وہ تین چیزیں جن کا تعلق ریاضت سے ہے یہ ہیں: خبر دار! جب تک اشتہاء یعنی بھوک نہ ہو کوئی چیز نہ کھائو کیونکہ اس سے حماقت اور کند ذہنی پیدا ہوتی ہے۔ صرف اسی وقت کھائو جب تمہیں بھوک لگے۔ جب کھائو تو حلال کھائو اور اللہ کا نام لے کر کھائو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کو یاد رکھو کہ سب سے برا برتن جسے کوئی آدمی بھرتا ہے وہ اس کا پیٹ ہے۔ پس لازم ہے کہ تمہارے پیٹ کا ایک تہائی کھانے کے لئے، ایک تہائی پینے کے لیئے اور ایک تہائی سانس لینے کے لئے ہو۔

وہ تین چیزیں جن کا تعلق حلم سے ہے یہ ہیں: اگر کوئی تم سے یہ کہے کہ اگر تم نے ایک بات کہی تو جواب میں دس سنو گے، تو تم اس کے جواب میں کہو کہ اگر تم دس کہو گے تو ایک بھی نہیں سنو گے۔ جو تمہیں برا بھلا کہے اسے کہو کہ اگر تم سچ کہہ رہے ہو تو اللہ مجھے معاف کرے اور اگر تم جھوٹ کہہ رہے ہو تو اللہ تمہیں معاف کرے۔ اگر کوئی تمہیں دھمکی دے تو تم اسے کہو کہ میں تمہارا خیرخواہ رہوں گا۔

وہ تین چیزیں جن کا تعلق علم سے ہے یہ ہیں: جس چیز کا علم نہیں رکھتے علماء سے پوچھو۔ اور خبردار کج بحثی کے لئے یاان کو آزمانے کے لیئے سوال نہ کرنا۔ اور خبر دار کبھی اپنی رائے پر عمل نہ کرنا اور جن چیزوں کا علم حاصل کرنے کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے ان میں جہاں تک ہو سکے احتیاط سے کام لو۔ اور فتویٰ دینے سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو، اور اپنی گردن کو لوگوں کے لیئے پل نہ بنائو۔ اے ابا عبد اللہ اب اٹھو اور جائو، میں نے تمہیں نصیحت کر دی ہے، میرے ورد میں خلل نہ ڈالو، میں اپنی ذات کے بارے میں بہت بخل سے کام لیتا ہوں (یعنی اپنی زندگی کا کوئی لمحہ غیر ضروری کام میں ضائع نہیں کرتا)، اور سلامتی ہے اس کے لئے جو ہدایت کی پیروی کرے‘‘۔ (بحار الانوار 224:1)

اپنا تبصرہ بھیجیں