میرا رب مجھے شفا دیتا ہے (سید صفدر رضا)

اور جب میں بیمار ہوتا ہوں وہی میرا پروردگار مجھے شفا دیتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر غضب ناک ہوتا ہے تو پوری اقوام عالم کو کسی بھی عذاب میں مبتلا فرما دیتا ہے جیسا کہ اجکل کرونا وائرس کا عذاب مسلط ہے حضرت انسان جو چاند کو تسخیر کر چکا اور دیگر سیاروں پر زندگی کی علامات کا متلاشی ہے مگر کم علم اتنا ہے کہ اپنے ہی سیارے کے باسیوں کی حیات کی تدابیر میں ناکام ہے اب بھی اسی کی جانب توجہ مبذول کیئے ہوئے ٹامک ٹویاں اور امید لگائے بیٹھا ہے کہ موسم گرم ہونے کی صورت میں بچت ممکن ہے وہ بھی شاید۔ہم اشرف المخلوقات کے داعی اور یہ بھی جانتے ہیں کہ بے شک اس کے نزدیک پسندیدہ دین دین اسلام ہے مگر ہم مسلمان ہونے کے باوجود کیا اس کے اور اس اللہ تعالیٰ جل جلالہ کمالہ کے محبوب نبی کے احکامات بجا لا رہے ہیں ہم پر ہر طرح کے دروازے بند ہو چکے ہیں مگر وہ غفور رحیم غفار ہم پر اب بھی مہربان ہے توبہ کا در بند نہیں کیا ادھر ہم میں سے جو اہل اختیار ہیں وہ اپنے چکروں میں لگے ہوئے ہیں اور اب بھی آپس میں مواخات کا درس بھولے بیٹھے ہیں مدینہ کی ریاست کے دعویدار بتا سکتے ہیں کہ اس بہترین ریاست میں مسلم کیا غیر مسلموں کو بھی انسانی تعظیم حاصل تھی انسان کیا دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا رہے تو اس کا ذمہ دار خلیفہ وقت خود کو گردانتا تھا اور کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو ضروت مند کے گھر رزق کا بندوبست کیا جاتا تھا مال غنیمت میں جنگ لڑنے والوں کو حصہ ملتا تھا کرونا وائرس کی جنگ لڑنے والے ہمارے محب وطن پیرا میڈیکل اسٹاف کو ہی حکومت وقت حفاظتی اقدامات میں ناکام نظر آتی ہے جس کے باعث فرنٹ لائین کے مجاہد اس و با کے شکار نظر آرہے ہیں ان کی قربانیاں بے سود ہوتی نظر آرہی ہیں اس خوف اور ڈر اور حکومتی رویے سے کہیں فرنٹ لائن کے مجاہد دل نہ چھوڑ بیٹھیں کہیں یہ بہادر ہمت نہ ہار بیٹھیں اگر خدا نہ کرے ایسا ہوا تو ہم کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے ایک یہ ہی دکھ نہیں وزیر اعظم قوم کا درد رکھتے ہوئے تین صوبوں کا دورہ کر چکے مگر جہاں دورہ نہ کیا کیا وہاں محب وطن پاکستانی نہیں رہتے امداد کا جو طریقہ کار اپنایا گیا مدینہ کی ریاست میں ایسی کوئی نظیر تو نہیں اب بھی سیاسی سکور نگ جاری ہے نمائندگان اپنے حلقوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے لڑاکا عورتوں کی طرح ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لینے دکھائی دیتے ہیں کہ اپنی جماعت کا دفاع کر کے اپنے لیڈر کی نظروں میں آجاؤں خدا کے لیئے اس سے باہر آکر صرف اور صرف پاکستانی بنیں پوری دنیا لاک ڈاؤن کے اصول کو بہترین تدبیر جانتی ہے اور ہمارے یہاں پہلے دن سے ہی مرکز اور صوبوں میں اختلاف نظر آتا ہے ابھی تک شکر ذات واجب کا بھوک سے کوئی نہی مرا اور الحمداللہ قوم کے مخیر اور صاحب ثروت افراد ایک جانب غریب وغیور افراد اپنے کھانے میں دوسروں کو شریک کر کے بھوکا نہ سونے دیں گے جس ملک کے وزیر اعظم کی فیملی دو افراد پر مشتمل ہے اور لاکھوں کی تنخواہ کے بعد عام حالات میں گھر چلانا مشکل ہو تو بھلا 12000ہزار کی امداد سے چار ماہ کا عرصہ کیسے گزرے گا کیا سب 25فیصد لوگوں کی جو فکر وزیراعظم صاحب کو لاحق ہے مشکل کا ازالہ فرمادے گی بات صرف اتنی ہے کہ برانڈ کی پبلسٹی بہت اہم ہے احساس پروگرام یا ٹائیگر فورس کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہم اس پیکیج کا نام جو سیاسی سکورنگ کے لئے رکھا گیا اس کا نام پاکستان یا نیشنل پیکج رکھتے جس سے ملی یکجہتی کی بو آتی احساس پروگرام کا بذات خود نہ سروے ہے نہ ریکارڈ یہ کسی اور دیٹے سے مستعار ہے نام سیاسی مقصد سیاسی مدینے کی ریاست میں جب خلیفہ وقت خود ہی مدد۔ فرماتے تو مستحق افراد اپنے محسن کو بھی نا جانتےیہا ں امدادلینے والوں کی اور دینے والوں کی تشہیر اور دھکم پیل میں جان گنوانے والی خاتون کی صرف عہد گزشتہ کی طرح رپورٹ طلب کر لی گئی خدا کا توبہ کا در کھلا ہے پوری قوم توبہ کرے حکومت ذاتی تشہیر کی بجائے فرائض منصبی احسن باوقار انداز میں اپنانے اور پریس کانفرنس میں شرکت کرنے کے بعد الزام تراشیوں کی بجائے مل کر قوم بن کر ملت کو اس مشکل گھڑی سے نکالے اور آپکا ہر اٹھنے والا قدم نمود نمائش کی بجائے رضائے الٰہی کے لیئے ہو ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ جل جلالہ ہم سے راضی ہو اور اپنی بہترین تخلیق خلق کردہ بنی نوع اِنسان پر رحم فرماتے ہوئے اس عذاب سے نجات عطا فرما اور قوم بھی اپنے فرائض سمجھے حکومتی احتیاطی تدابیر اختیار کر لی جائیں اور حکومت اور جہاں ممکن ہو اپنے ارد گرد کے لوگوں کی مشکلات حل کرسکیں حل فرمائیں اور پوری قوم کے بلا تفریق مذہب فرقہ سیاسی وابستگی اپنا بھرپور کردار اس خالق کائینات کی رضا کے لئے انجام دیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں