پاکستانی قوم…اسلام سے زیادہ مسلمان (ساجد خان)

جب سے کرونا وائرس کی وباء پھیلی ہے، پاکستان میں ہر شخص ہی پکا مسلمان اور نمازی نظر آ رہا ہے۔ اس سے قبل کبھی مسجد کی شکل دیکھی ہو یا نہیں لیکن ریاست نے اکٹھے ہونے سے منع کیا ہے تو پھر ہم پر واجب ہے کہ ہم ضد میں آ کر باجماعت نماز ادا کریں۔

آپ اگر عام حالات میں مساجد کے حالات دیکھیں تو نماز کے دوران کتنی صفیں ہوتی تھیں لیکن اب ماضی سے زیادہ نمازی نظر آ رہے ہیں کیونکہ ہم نے ہر کام میں ضد کرنی ہوتی ہے۔ یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ شاید ریاست اسلام کی دشمن ہے اور وہ مساجد کو بند کرنے کے لئے ایسا کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف حال ہی میں سعودی عرب کے مفتی اعظم نے فتویٰ دیا ہے کہ ماہ رمضان میں تراویح گھر میں پڑھی جائے تو سوشل میڈیا پر ان کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی شروع ہو گیا،ہر شخص مفتی اعظم کو برا بھلا اور اسلام کا دشمن کہتا نظر آ رہا تھا حالانکہ یہی مفتی اعظم اور امام کعبہ ہوتے تھے کہ جب یہ پاکستان کا دورہ کرتے تھے تو پاکستانی قوم صرف ان کو دیکھنے کے لئے دور دور سے آیا کرتے تھے پھر یہ اچانک نفرت کیسے پیدا ہو گئی۔

کیا سعودی عرب کے مفتی اعظم سے پاکستانی قوم زیادہ عربی جانتی ہے۔ہم تو قرآن مجید کو بس ایک مقدس کتاب سمجھ کر پڑھتے ہیں اور ایک قلیل تعداد ایسی ہے جنہیں قرآن مجید پڑھتے وقت یہ بھی سمجھ آتی ہے کہ آخر اس کتاب میں اللہ تعالیٰ کیا کہہ رہا ہے جبکہ ایک عرب کے لئے قرآن مجید بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم کوئی اردو زبان میں کتاب پڑھ رہے ہوں، ایک ایک لفظ کا مطلب انہیں سمجھ آتا ہے کیونکہ قرآن مجید ان کی مادری زبان میں نازل ہوا اور ایک مفتی اعظم خواہ وہ حکمران خاندان کی پسند پر ہی بنا ہو مگر اس نے اتنی دینی تعلیم تو حاصل کی ہی ہوتی ہے کہ وہ اسلام کو سمجھ سکتا ہے اور حالات کے مطابق فتویٰ بھی دے سکے لیکن ہمارے لئے ہر وہ شخص اسلام کا دشمن ہے جو ہماری سوچ کے خلاف اسلام کے احکامات بتائے خواہ ہم اسلام کے احکامات کے خلاف ہی کیوں نا کھڑے ہوں۔

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم آج بھی یہ بات یقین کی حد تک مانتے ہیں کہ کرونا وائرس کی وباء دراصل جھوٹ کا پلندہ ہے اور یہ صرف مسلمانوں کو مساجد سے دور رکھنے کے لئے یہود و نصارٰی نے شروع کیا گیا ہے جبکہ حقائق سب کے سامنے ہیں کہ اس وباء سے سب سے زیادہ متاثر وہی طبقہ ہے جس پر ہم الزام عائد کرتے ہیں۔

آپ اگر پاکستان کے کسی پکے مسلمان سے اس معاملہ پر بحث کریں تو اول تو وہ کرونا وائرس سے اتنی تعداد میں ہلاکتیں ماننے کو ہی تیار نہیں ہو گا کہ یہ سب ڈرامہ رچایا گیا ہے اور اموات کے بارے میں جھوٹ بولا جا رہا ہے،اسی لئے مغربی میڈیا ہلاک ہونے والے افراد کی لاشیں نہیں دکھا رہا اور اگر کوئی حد سے زیادہ باشعور شخص مان بھی لے تو وہ یہ ماننے کے لئے بالکل بھی تیار نہیں ہوتا کہ یہ وباء مسلمانوں پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔

اس ذہنیت نے ان ممالک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں کافی مسائل پیدا کر دیئے ہیں خصوصاً ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں جہاں گزشتہ ماہ تبلیغی اجتماع منعقد کیا گیا اور اس کے بعد بھارت میں کرونا کے مریضوں کی تعداد میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا جس میں ان افراد کی کافی تعداد تھی جنہوں نے تبلیغی اجتماع میں شرکت کی تھی۔ اس واقعہ کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز پروپیگنڈہ شروع کیا گیا اور یہاں تک الزام لگایا جا رہا ہے کہ مسلمان اس ملک کے دشمن ہیں جنہوں نے ایک سازش کے تحت کرونا وائرس پھیلایا۔

مسلمان مخالف جماعتوں نے بھی اس صورتحال کا خوب فائدہ اٹھایا، جھوٹی افواہیں پھیلائی گئیں اور اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ مسلمانوں پر حملے کئے جا رہے ہیں اور مذہب اسلام کو کرونا وائرس کی طرح خطرناک مذہب قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمان ممالک ہوں یا غیر مسلم ممالک جہاں بھی کرونا وائرس پھیلا اس میں مذہبی حلقوں کی ضد اور غیر ذمہ دارانہ رویہ شامل تھا۔

پاکستان میں گو کہ کرونا وائرس کی وباء اس تیزی سے نہیں پھیلی جس طرح مغرب اور امریکہ میں پھیلی گو کہ ہم نے بھی اسی طرح بے احتیاطی کی لیکن اب جو ہمیں ایک چیلنج نظر آ رہا ہے وہ ماہ رمضان کی آمد ہے۔ جس میں مساجد کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں اور جو افراد عام حالات میں مساجد کا رخ نہیں کرتے، وہ بھی اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کو ترجیح دیتے ہیں۔

ریاست نے تراویح کے اجتماعات پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی مگر چند علماء کرام نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے تراویح باجماعت پڑھنے کا اعلان کر دیا۔ اب یہاں اکثریت کا موقف ہے کہ جب نائی کی دکان کھل سکتی ہے،درزی کی دکان کھولی جا سکتی ہے تو پھر مساجد کیوں نہیں کھل سکتیں۔

اول تو مساجد کا نائی یا درزی کی دکان سے تقابل ہی جہالت ہے لیکن اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو کیا یہ وقت ہے کہ ضد کی جائے۔ یہ آپ کی اور ہماری جان کی حفاظت کے لئے اقدامات ہیں اور ہم ضد کر رہے ہیں یا مثالیں دے رہے ہیں کہ فلاں دکان کھلے گی تو پھر مسجد بھی کھلے گی۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی، باجماعت تراویح پڑھنے کے اعلان کے بعد اہل تشیع کے چند رہنماؤں نے بھی اعلان کر دیا کہ اگر باجماعت تراویح کی اجازت ہو گی تو ہم بھی انیس تا اکیس رمضان شہادت مولا علی علیہ السلام کی یاد میں ماتمی جلوس نکالیں گے یعنی ہر طبقہ قوم کو تباہ کرنے کے لئے مکمل طور پر تیار بیٹھا ہے بلکہ اس تباہی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہے حالانکہ سعودی عرب میں خانہ کعبہ بند ہے، مسجد نبوی بند ہیں، مساجد میں باجماعت تراویح پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

ایران اور عراق میں مساجد بند ہیں، مقدس مقامات بند ہیں وہاں جلوسوں پر پابندی ہے لیکن ہمیں اس معاملے میں ان ممالک کی پیروی نہیں کرنی کیونکہ ہم ان سے زیادہ پکے مسلمان ہیں اور اسلام کے بارے میں جتنا ہم جانتے ہیں وہ سعودی عرب، ایران اور عراق کے علماء کرام نہیں جانتے گویا اسلام حجاز میں نہیں بلکہ پاکستان میں نازل ہوا تھا۔ کیا اسلام نے بھوک سے مرنے کے بجائے جان بچانے کے لئے حرام جانور کا گوشت کھانے کی اجازت نہیں دے رکھی۔

جب جان بچانے کے لئے حرام گوشت جائز ہو جاتا ہے تو پھر اپنی اور دوسروں کی زندگی بچانے کے لئے باجماعت نماز ساقط کیوں نہیں ہو سکتی۔ اسلام اتنا مشکل کبھی بھی نہیں تھا جتنا ہم نے خود اپنے لئے بنا لیا ہے۔

ایسا کون سا مولانا ہے جس نے یہ جملہ کبھی خطبہ میں نہیں پڑھا ہو گا کہ اسلام دین فطرت ہے،اب فطرت میں جان بچانا اولین ترجیح ہے تو اب ان کو دین فطرت پر عمل کرنا کیوں غیر ضروری محسوس ہو رہا ہے۔

یہاں ہماری فضول ضد کی مثال اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ سوشل میڈیا پر مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی مہم کی سب سے زیادہ حمایت خواتین کرتی نظر آ رہی ہیں، اب ان خواتین سے پوچھنا چاہئے کہ کہ آپ نے کبھی مسجد میں باجماعت نماز پڑھی بھی ہے جو آج اس کی حمایت کر رہی ہیں،ان کا اس معاملہ سے کچھ تعلق نہیں ہے۔باجماعت نماز ادا ہونا شروع بھی ہو جائے تب بھی خواتین کو مسجد میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا لیکن وہ بھی کیا کریں،یہ ہمارا قومی مشغلہ ہے کہ جس کا جس معاملے سے تعلق نہیں ہوتا وہی سب سے زیادہ دلچسپی دکھا رہا ہوتا ہے۔

یہ جہالت ہے نا کہ اسلامی تعلیمات۔ اسلام اس طرح اپنی اور دوسروں کی جان خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا، اسلام میں تو ایک انسان کی جان حرمت کعبہ سے افضل ہے جبکہ یہاں تو ہزاروں بلکہ لاکھوں جانوں کا معاملہ ہے لیکن ہم بھلا یہ باتیں کہاں مانتے ہیں کیونکہ ہم تو اسلام سے بھی بڑھ کر مسلمان ہیں۔

ہم بحیثیت مسلمان قوم یوں ہی عتاب کا نشانہ نہیں ہیں بلکہ ہماری جہالت اس کا سبب ہے۔cہماری تباہی میں سب سے زیادہ کردار ہمارا اپنا ہے۔

ماضی میں جب ہلاکو خان بغداد پر حملہ کرنے جا رہا تھا تو اس وقت علماء کرام اس بحث میں مصروف تھے کہ کوا حلال ہے یا حرام اور آج جب کرونا وائرس کی شکل میں جب ایک دشمن ہم پر حملہ آور ہے تو اب بھی ہمارا وہی حال ہے۔ علماء کرام قوم کے لئے ایک باپ کی نسبت رکھتے ہیں جس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو غلط کاموں سے بچائے اور اس کی جان کی حفاظت بھی کرے۔

آج جب قوم کی جان بچانے کی ذمہ داری سر پر آئی ہے تو اس پر غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے،یہ بھی جانتے ہیں کہ کرونا وائرس عام بیماری نہیں ہے بلکہ ایک وباء ہے جو ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتی ہے اور اس کا سب سے پہلا نشانہ مریض کے اپنے قریبی افراد ہوتے ہیں، اس کے باوجود اس کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا تو پھر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے بلکہ وزیر اعلیٰ سندھ کی طرح صرف ایک جملہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔

اپنا تبصرہ بھیجیں