رب نیت دیکھتا ہے حیثیت نہیں (سید صفدر رضا)

پاک سر زمین عطیہ خدا وندی ہے۔ دنیا کے نقشے پر علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر کی صورت معرض وجود میں آنے والی مملکت آج کورونا وائرس کے شکنجے کے علاؤہ دیگر مشکلات میں مبتلا ہے۔ رمضان کی آمد آمد ہے مبارک گھڑیوں اور توبہ کی ساعتیں ہیں۔ نزول رحمت عروج پر ہونگی۔ گھر گھر جہاں ناچ گانا ڈرامے اور شیطانی حملے عام ہیں۔ اب عبادات کے لمحات عروج پانے کو ہیں۔

بیشک رمضان المبارک اللہ رب العزت کا مہینہ ہے۔ اس مبارک مہینے میں قرآن مجید فرقان حمید کا نزول ہوا۔ پاک وطن اس کی مبارک ساعتوں میں وجود میں آیا اور اس مشکل گھڑی میں مسلمانان برصغیر نے بے شمار قربانیاں دے کر اسے ایمان اتحاد تنظیم کے جذبے سے سر شار نظر آئے۔

آج اس مشکل وقت میں ہمیں اسی ملی جذبے کی ضرورت ہے۔ پس ہمیں صوبائی یا سیاسی وابستگیاں بھلا کر ایک ہونے کاوقت ہے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کا عوام نے جیسا تمسخر اڑایا ہےاسکی مثال نہیں ملتی۔ دوسری جانب اہل اقتدار میڈیکل اسٹاف کو حفاظتی اقدامات بہم پہنچانےمیں بالکل ناکام نظر آتے ہیں جس کا ثبوت ڈاکٹروں اور دیگر میڈیکل عملے کی اس مرض میں مبتلا ہونے والی بڑی تعداد ہے۔اور ان کے احتجاج اپنے حفاظتی کٹس کے لئے آئے روز نظر آتے ہیں۔

وزرا اور سیاسی جماعت کے نمائیندے سیاسی سکورنگ میں نظر آتے ہیں۔ ریاست کی رٹ قائم کی جائے۔ہم صرف مذہبی معاملہ نہ بنائیں۔ میں مذہبی رہنماؤں سے معذرت کے ساتھ کہتا ہوں جب مسجد الحرام خانہ کعبہ بند ہے نماز اور تراویح گھر پر ادا کرنے کو کہا گیا ہے ایران سعودی عرب یو اے ای ترکی انڈونیشیا اور باقی مسلم ممالک اس وبا کے خلاف ایک پیج پر ہیں۔ جامعہ ازہر کے فتوے موجود ہیں اور ہم مسجد ہی جانے پر بضد ہیں۔ مہنگائی کا طوفان کھڑا ہے جبکہ عالمی سطح پر پیٹرول انتہائی نچلی سطح پر ہیں مگر عوام اس سہولت سے محروم ہے۔

شاعر مشرق کا یوم وفات یکسر بھلا دیا گیا کوئی حکومتی سطح پر پیغام تک جاری نہ ہوا اپنے محسن کو بالکل بھلا دیا لاک ڈاؤن مزدوروں اور دیہاڑی دار طبقہ کی سہولت کے لیئے نرم ہوا مگر سڑکوں پر امیروں کو سہولت ملی کاریں ہی کاریں نظر آرہی ہیں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے سے مزدور کیسے سفر کریں۔

وزرا راشن تقسیم کرتے ہوئے مجمع لگاتے ہیں۔ تصاویر بنائی جارہی ہیں۔ جب ڈاکٹر کے مشورے پر روزہ نہیں رکھتے تو ان کے مشورے پر عمل کیا جائے۔ اگر آج عمل نہیں تو پھر رمضان میں ایس او پی (SoP) پر کس طرح عمل ممکن ہے۔ اللہ نہ کرے اگر مرض مزید پھیلا تو سنبھالنا کیسے ممکن ہے۔ ہمارا میڈیکل سسٹم بہت ہی کمزور ہے وہ دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں پہلے اس وبا کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں۔ اب ہمیں امیر غریب کے بارے میں نہیں بلکے ہر شہری کے بارے سوچنا ہے۔ اب وزیراعظم فرما رہے ہیں گھر پر رہیں۔

لاک ڈاؤن نرم کرنے کا کریڈٹ بھی لیا جارہا ہے جو طریقہ کار انسانوں کو اس وائرس سے بچانے کے لئے پوری دنیا اپنا رہی ہے کہ فاصلہ رکھا جائے وہ اپنایا جائے یہ وقت آیک ہونے کا ہے سیاست کا نہیں پوری قوم کے ایک ہو نے کا ہے توبہ کا در کھلا ہے رمضان میں عبادات گھر گھر بجا لانے کا ہے مجمع کہیں کسی صورت نہ لگے اللہ جو شہ رگ سے بھی قریب ہے وہ ہماری نیت دیکھتا ہے حیثیت نہیں ہمارے اعمال اس نے قبول فرمانے ہیں۔ اللہ ایسی عبادت اور نمازیں ہمارے منہ پر مارتاہے جس سے کسی بھائی کو تکلیف ہو۔

خیال رہے کوئی بھوکا نہ سوئے ہمسائے کے حقوق کا خیال رکھا جائے حکومت سخت اقدامات اٹھائےقوم ذمہ داری کا مظاہرہ کرے حکومت کی مشکلات کم کرے۔وزیر اعظم کو یاد رکھنا چاہیے وہ پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں