سوشل میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا کی بڑھتی گھبراہٹ (ساجد خان)

کل جیو نیوز پر حامد میر نے اپنے پروگرام میں سوشل میڈیا کو موضوع بحث بنایا اور اس کے لئے محمد مالک اور مظہر عباس کو مدعو کیا گیا تھا۔ جس میں محمد مالک نے نہایت غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر بیٹھے لوگ گھر میں چھپ کر تنقید کرتے ہیں جبکہ ہم سب کے سامنے آ کر ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور طاقتور افراد کی دشمنی مول لیتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ پروگرام یہ بتانے کے لئے کیا گیا کہ الیکٹرانک میڈیا قوم کی مسیحا ہے، جس نے بھیڑیوں کے آگے بند باندھ رکھا ہے ورنہ قوم کو طاقتور مافیا کچا چبا جاتا حالانکہ یہ سب کام عوام کی بھلائی سے زیادہ ذاتی کمائی کے لئے کیا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکٹرانک میڈیا نے بہت سے معاملات میں مثبت کردار ادا کیا ہے اور آج کافی جرائم اس کی بدولت نہیں ہوتے لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ الیکٹرانک میڈیا بھی وقت کے ساتھ ساتھ مافیا بنتا چلا گیا۔

ایک وقت یہ بھی آ گیا کہ بہت سے چینل فریق بن گئے، ایک حکومت کا حامی تو دوسرا حکومت کا مخالف اور پھر حکومت بدلنے کے ساتھ ہی چینلز کی وفاداریاں بھی بدل گئیں۔ اسی طرح اینکرز بھی جماعتوں کے پیرول پر کام کرنے لگے، کوئی مسلم لیگ ن کی حمایت میں بولتا نظر آیا تو کوئی پاکستان تحریک انصاف کے حق میں نظر آیا۔

الیکٹرانک میڈیا کے اینکرز کا خیال ہے کہ وہ ٹی وی پر بیٹھ کر کسی کی بھی بنا ثبوت کے پگڑی اچھال سکتے ہیں اور انہیں یہ پیدائشی حق ہے بلکہ یہ آزادی رائے ہے لیکن جب ان کے خلاف کوئی آزادی رائے کا اظہار کرتا ہے تو سب سے زیادہ یہی اینکرز اور تجزیہ کار بپھر جاتے ہیں، جس سے اس بات کا اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں کہ الیکٹرانک میڈیا آزادی رائے کا حق صرف اپنے لئے مخصوص سمجھتے ہیں۔

اس کا عملی مظاہرہ آپ اکثر و بیشتر ٹی وی پر دیکھ چکے ہوں گے کہ اینکر کسی سیاسی جماعت پر الزامات در الزامات لگاتا ہے لیکن جوں ہی جماعت کا نمائندہ اس اینکر پر انگلی اٹھاتا ہے تو اینکر طوفان برپا کر دیتا ہے کیونکہ وہ خود کو تنقید سے بالاتر سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق تنقید کرنے کا حق صرف انہیں حاصل ہے شاید یہی وجہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اب سوشل میڈیا کے خلاف محاذ کھڑا کرتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ سوشل میڈیا اب الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ طاقتور فورم بنتا جا رہا ہے اور بہت سے ایسے معاملات جن پر الیکٹرانک میڈیا پردہ پوشی کر کے بااثر طبقے کی آنکھوں کا تارا بن کر ذاتی مفادات حاصل کر سکتے تھے، جس میں ایک بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض بھی ہیں۔

رواں ماہ میں چند ایسے واقعات منظر عام پر آئے ہیں، جن کا ذکر کرنے سے الیکٹرانک میڈیا کو اپنے پر جلنے کا خدشہ تھا لیکن ان واقعات کو سوشل میڈیا نے زندہ رکھا، جس پر مجبوراً الیکٹرانک میڈیا کو بھی انتہائی محتاط طریقے سے لب کشائی کرنا پڑی۔

اس میں ایک واقعہ کرنل کی بیوی کا پولیس اہلکاروں سے بدتمیزی اور دوسرا واقعہ ملک ریاض کی بیٹیوں کا مسلح گارڈز کے ساتھ اداکارہ اعظمی خان پر حملہ کرنا تھا، جس پر الیکٹرانک میڈیا نے حتیٰ الامکان کوشش کی کہ ان واقعات پر پردہ پڑا رہے لیکن سوشل میڈیا نے سب ارادے خاک میں ملا دیئے۔

اس کے علاوہ اے آر وائی نیوز کی سندھ حکومت کے خلاف متعصبانہ رویہ سامنے آنے پر بھی سوشل میڈیا نے چینل کو خوب آڑے ہاتھوں لیا جس پر سید اقرار الحسن سیخ پا ہو گئے حالانکہ وہ خود جب چاہیں، جہاں چاہیں کسی سرکاری دفتر میں یا کسی کی پرائیویٹ پراپرٹی میں گھس کر کسی کے خلاف بھی پروگرام کرنے کا حق رکھتے ہیں مگر ان پر کسی کو تنقید کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

یہ معاملات ابھی ختم نہیں ہوئے تھے کہ رؤف کلاسرا بھی میدان میں آ گئے۔ ان کے گاؤں میں کلاسرا برادری کے درمیان زمین کا جھگڑا ہوا، جس پر پولیس نے رات گئے ایک فریق کے گھروں میں گھس کر گرفتاریاں شروع کر دیں، گرفتار ہونے والے نوجوان صحافی کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر کافی متحرک تھے، انہوں نے پولیس کارروائی کا الزام رؤف کلاسرا کے اثر و رسوخ پر عائد کیا، جس پر سوشل میڈیا نے گرفتار نوجوانوں کی حمایت جبکہ رؤف کلاسرا کی مذمت میں آواز بلند کی، جس پر رؤف کلاسرا کی توہین ہوگئی اور انہوں نے ان افراد کے خلاف ایف آئی اے میں شکایت درج کروا دی لیکن دوسری طرف رؤف کلاسرا خود میڈیا پر بیٹھ کر آصف علی زرداری اور دوسرے بہت سے افراد پر اربوں کھربوں روپے کی کرپشن کا الزام اس یقین کے ساتھ لگاتا ہے کہ گویا کل ہی رؤف کلاسرا کے تمام ثبوت کو مدنظر رکھتے ہوئے سب کو سرعام پھانسی دی جائے گی لیکن نجانے رؤف کلاسرا اپنے ثبوت تفتیشی اداروں کو فراہم نہیں کرتے یا ان کے ثبوت اس قابل ہی نہیں ہوتے کہ تفتیشی ادارے ان پر بھروسہ کر سکیں۔

جب الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھ کر آپ گھنٹوں پر الزامات لگانے کا حق رکھتے ہیں تو پھر دوسروں کو بھی اس حق کے تحت اتنی آزادی تو دیں کہ وہ آپ پر تنقید کر سکیں۔ وہ کتنوں کے خلاف سائبر کرائم رپورٹ کرائیں گے اور کب تک کرائیں گے۔ اس جنگ میں ان کے مقدر میں سوائے ذلالت کے کچھ حاصل نہیں ہو گا، جس کا اقرار وہ آج کے کالم میں خود بھی کر چکے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا جتنی جلدی اس حقیقت کو تسلیم کر لے، اتنا ہی بہتر ہے کہ ہر عروج کا زوال ہوتا ہے۔

دو دہائیاں قبل اخبارات کا بول بالا تھا مگر آج اخبارات کی قدر نا ہونے کے برابر ہے، اسی طرح سوشل میڈیا کے آنے کے بعد الیکٹرانک میڈیا ون مین شو نہیں رہا اور اگر سوشل میڈیا اتنا ہی برا ہے تو آج ہر اینکر نے اپنے نام سے پیجز اور یوٹیوب چینل کیوں بنا رکھے ہیں۔

الیکٹرانک میڈیا کی گھبراہٹ سمجھ آ رہی ہے کہ وہ اپنی بقاء کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن وہ لوگ بھی سوشل میڈیا کے بغیر کچھ نہیں ہیں۔ اس لئے حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کریں اور خود پر تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں ورنہ آپ سوشل میڈیا کے خلاف جنگ میں عزت اور مقام کھو بیٹھیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں