آہ تم چل دیئے جنت نظیر وادی سے جنت کیطرف (سید صفدر رضا)

ارشاد ربانی ہے کہ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اور جب زندہ لوگوں کی دنیا میں مرنے والا یہ ذائقہ چکھنے سے پہلے زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے تو زندگی کی رنگینیوں، تلخیوں اور فطرت کی بے۔ ثباتیاں اس کو ایسے ایسے ذائقے چکھاتی ہیں جو اس فرد کی ایک وقت آنے پر کھٹی میٹھی تلخ و شیریں یادوں کا مسکن بن جاتی ہیں۔لیکن زندگی کتنی ہی تلخ گزرے پھر بھی قدرت کے حسین تحائف میں زندگی سر ورق کی حیثیت رکھتی ہے۔انسان جو اشرف المخلوقات ہے اگر زندگی اپنی مرضی سے گزارے تو اس کے حسین لمحات کو حاصل کرنے کی جستجو میں ایسا مگن ہوتا ہے کہ اس کوبے شمار تلخ حقیقتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی بہن بھائیوں کے کھوجانے کا دکھ کبھی ماں باپ جیسی ہستیوں سے محروم ہونے کا غم کبھی اپنے دوستوں کو ہمیشہ کے لیئے اس دنیا سے جاتا دیکھ کر اپنے بچپن، لڑکپن، جوانی کی یادوں کے نشتر دل پر مجبوراً سہنے پڑ جاتے ہیں،جانے والے کو روک نہیں سکتے مگر اس کے جدا ہونے پر دنیا ہی ویرانہ معلوم ہونے لگتی ہے دوستوں کے ساتھ گزرا ہوا ہر لمحہ جسم و روح میں ایسے تحلیل ہو جاتا ہے کہ دل اس کی موت کی تلخ حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کر پا رہا ہوتا۔گذشتہ ایام میں ہماری ایک ایسی ہر دلعزیز شخصیت ہم سے جدا ہو گئی جس کے اخلاق و اوصاف کی وجہ سے ہر کوئی یہ گمان کرتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ اس کے قریب ہے ۔لیکن مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ محترم شہزاد احمد بھٹی جو گزشتہ دنوں ہمیں داغ مفارقت دے گئے جو میرے کافی قریب اور محبت کرنے عزت دینے والے تھے۔ موصوف کا پروفشنل زندگی کا آغاز مووی میکنگ سے ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ ساکت عکاسی کے شعبے میں ترقی پاتے گئے۔موصوف بہت تھوڑے وقت میں ہی اپنے شعبے کی معروف شخصیات میں اہم مقام حاصل کر گئے۔ مجھے یاد ہے کہ اک روز میں نے اپنی فطری جبلت کے حوالے سے سیاحت کے اپنے پروگرام سے آگاہ کیا کہ ہم نے سوات کالام جانے کا پروگرام بنایا ہے میری خواہش ہے آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں موصوف جیسے بالکل تیار تھے فورا گویا ہوئے شاہ صاحب کب کا ارادہ ہے۔میں اپنے ایونٹس کی تواریخ چیک کر لوں کہ کوئی سرکاری ایونٹ آڑے نہ اجائے۔ کیونکہ ذمہ داری اور فرض شناسی پر موصوف نے کبھی غیر اخلاقی یا غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار نہ کیا ہم نے پروگرام سے موصوف کو آگاہ کیا اور اگلے روز ہی حاضر ہو گئے فرمانے لگے آپ کے ساتھ ہم بھی چلیں گے اور ہم پاکستان کے سوئٹزرلینڈ (سوات) روانہ ہوئے ہم سب دوستوں میں شہزاد صاحب کی خوشی دیدنی تھی وہ خاصے پر جوش دکھائی دے رہے تھے ہمارا اصل پڑاؤ کالام میں ہوا اگلے روز ہم دوستوں نے فیصلہ کیا کہ کنڈول جھیل پر جانے کے لیئے صبح جلد ہی روانا ہونا ہے۔ناشتہ کرتے ہی ہم منزل کی جانب چل دیئے ہم دس افراد تھے۔ طے یہ پایا کہ دوپہر کا کھانا فروٹ کے علاؤہ ساتھ لے چلیں ہم اتروڑ تک جیپ میں گئے پھر خطرنا ک بل کھاتے راستوں اور پتھروں پر ہائیکنگ شروع ہوئی شہزاد صاحب حسین دلفریب پر خطر مقامات کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتے جارہے تھے سب دوست ہائیکنگ کے ماہر نہ تھے جیسے جیسے راستہ پیچیدہ اور پر خطر ہوتا جارہا تھا ساتھیوں کی ہمت جواب دیتی جارہی تھی مگر شہزاد بھٹی کا حوصلہ جوان ہوتا جارہا تھا قصہ المختصر ہم دس افراد میں سے صرف چار دوست کنڈول جھیل تک پہنچ سکے جن میں شہزاد بھائی سرفہرست تھے۔ ہم نے وہاں فاتحانہ انداز میں تصاویر بنوائیں اور جھیل کنارے بیٹھ کر سب کا کھانا ہم چاروں نے کھایا۔ جھیل کے صاف ستھرے پانی سے پیاس بجھائی تو موصوف فرمانے لگے ساری زندگی آلودہ پانی پیا اب یہ ٹانک پیئں۔ جھیل کے سفر سے واپسی پر موصوف ہشاش بشاش تھے۔بس اس کے بعد ان کو سیاحت کا ایسا چسکا لگا کہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا آپ نے پاکستان کے حسین مناظر کی عکسبندی کو اپنا معمول بنا لیا آپ نے سیاحت اور پاکستان کے مناظر کی عکسبندی اپنا مقصد حیات بنا لیا۔ آپ کی بنائی ہوئی تصاویر کو سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں خوب پذیرائی ملی آپ نے اپنے فن سے جنت نظیر وادیوں پاکستان کی خوبصورتی سے دنیا کو روشناس کروایا اور بین الاقوامی طور پر پاکستان کی مناظر سے آگاہ کر کے سیاحت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا اب بھی آپ نے دوستوں کے ہمراہ سکردو کی سیاحت کا پروگرام بنایا تھا کورونا کی وبا کے باعث ٹورزم نہ کھلنے کے باعث مجھ سے راستے بھر کی معلومات لیں۔ لاک ڈاؤن کی سختیوں کے باعث میں نے انتظار کرنے کا مشورہ دیا موصوف نے اپنے سیاحتی ساتھیوں کو کہا سیاحت کے کھلتے ہی ہمارا گروپ روانہ ہو جائے گا۔ موصوف کا کہنا تھا کہ جب پاکستان کو اللہ نے ہر طرح کا لینڈ سکیپ دیا ہے تو اسے گھومے بغیر بیرون ممالک کی سیر کرنا بے معنی ہے پاکستان کو آللہ تعالیٰ نے صحرا، سمندر، دریا، نہریں، چشمے، اپشاریں، جھیلیں جھرنے، جزیرے، پہاڑ، گلیشیئر جنگلات سب سے نوازا ہے تاریخی لحاظ سے بھی اور مذہبی اعتبار سے بھی یہ سرزمین مالا مال ہے فطرت کی بے ثباتیاں اسکے حسن کو دوبالا کرتی ہیں۔ اس کو گھومنا اور اس کے مناظر کی عکسبندی شہزاد بھائی کا اوڑھنا بچھونا بن گیا سیاحتی صنعت میں اپکو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے آج بھی اسکی عکسبند کی گئی تصاویر وطن کی محبت اور خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جن دوستوں نے وطن کی سیاحت کے دوران تصاویر بنوائی ہیں وہ اسکو اپنا قیمتی اثاثہ قرار دیتے ہیں۔ تادم تحریر اس غم سے نکلنا ممکن نہ ہو سکا۔ موصوف کی ناگہانی موت نے والدین سے انکی آنکھوں کا نور، بچوں سے شفقت پدری،دوستوں کی محفل کا رونق محفل، لوگوں کے دکھ درد میں ہمیشہ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہو نے والا ہمدرد اب ہم میں نہیں رہا،اسکے بنا یاروں کی محفلیں اداس ہیں۔ ہمیں گھر بیٹھے ہے اپنی تصاویر سے وطن عزیز کے کونے کونے کی سیر کروانے والے مرحوم کو اللہ تعالیٰ جنت نصیب کرے پوڑھے والدین کا خدمت گزار اور اب آقا نامدار سرور کونین کی محفل میں خدمت گزاری پر معمور ہو چکا ہے۔ہماری دعا ہے کہ کروٹ کروٹ جنت نصیب ہو۔ جملہ لواحقین کو یہ۔ صدمہ برداشت کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں