جہاد اصغر سے جہاد اکبر تک (سید صفدر رضا)

اسلام کی تاریخ کو خاندان اہلبیت علیہ السّلام کے خون دے کر پروان چڑھایا ہے اس کی آبیاری کی خاطر طائف کی وادی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین مبارک میں جمع شدہ لہو سے اسلام کی قدرو منزلت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ جب طائف والوں نے آپ کو پتھروں سے زخمی کر دیا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام آقا نامدار رحمت اللعالمین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے آقا آپ حکم دیں تو میں رب تعالیٰ کے حکم سے ان پہاڑوں کو آپس میں ملا کر ان کو ختم کر دوں۔ کیا کہنے میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آپ نے فرمایا نہیں یہ مجھے جانتے نہیں ہیں کہ میں کون ہوں غرض مشرکین مکہ اور کفار مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ کبھی شعب ابی طالب میں تکالیف برداشت فرمائیں۔ تو جب کفار نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو شب ہجرت مولا علی علیہ السلام کو اپنےبستر پر سونے کا حکم فرما کر امانتیں آپ کے سپرد فرما کر ہجرت کے مراحل طے فرمائے۔ غزوات میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتوحات کے باوجود کفار سے مثالی سلوک روا رکھا۔ فتح مکہ کے موقع پر حضرت سعد نعرہ بلند فرماتے ہیں کفر و شرک کے وڈیروں باہر آؤ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام تم سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار ہیں باد صبا کے جھونکے یہ آواز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا دیتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں سعد کو میرے پاس لاؤ ہم بھی تو سنیں کیا کہ رہے ہیں۔ حضرت سعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں سعد کیا نعرہ لگا رہے ہو۔ حقرت سعد نے کہا میں تو آپکے دشمنوں کو ڈرا رہا تھا۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرما نہ سعد نہ ایسے نہ کرو اس سے میری رحمت کو تکلیف ہوتی ہے جاؤ مکہ کے گلی کوچوں میں نعرہ لگاؤ۔ آج معافی کادن ہے محمد تمہارا خون بہانے نہیں ایا۔مکہ کے بیٹے، بیٹیوں کو یتیم بنانے نہیں آیا۔ مکہ کی عورتوں کو بیوہ بنانے نہیں ایا۔ان کے سروں سے چادریں اتارنے نہیں ایا۔اج عام معافی ہے ۔یہ تعلیمات ہیں معلم اخلاق کی۔ دوسری جانب حسین علیہ السلام ہیں۔جن سے دربار ولید میں بیعت طلب کی جاتی ہے تو امام عالی مقام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں “ہم خاندان نبوت اور معدن رسالت ہیں ۔ہمارے گھر فرشتوں کی رفت و آمد رہا کرتی ہے۔ ہمارے خاندان پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ہمارے گھر سے شروع کیا اور آخر تک ھمیشہ ہمارا گھرانہ اسلام کے ہمراہ رہے گا۔ لیکن یزید جس کی بیعت کی تم مجھ سے توقع کر رہے ہو۔ اس کا کردار یہ ہے کہ وہ شراب خور ہے۔ بے گناہ افراد کا قاتل ہے اس نے اللہ کے پیغام کو پامال کیا اور سر عام فسق و فجورکا مرتکب ہوتا ہے۔ مجھ جیسا شخص کبھی بھی اس جیسے شخص کی بیعت نہیں کرے گا”

آپ اپنے فرمان پر قائم رہے اور حق وباطل کے معرکے میں کر بلا کی سر زمیں پر اپنے سامنے اصحاب کو شہید ہوتے دیکھا۔ اہلیبیت علیہ السلام کے افراد کو شہید ہوتے دیکھا کربلا کے صحرا میں فدایان اسلام کے گل کھلا کر گلزار بنادیا۔ عاشور کے سارا دن لاشے اٹھا اٹھا کر خیموں میں لاتے رہے۔ حسین علیہ السلام سے بڑا مظلوم اورٹابت قدم کون ہوگا کہ آپ نے اپنے حبیب ابن مظاہر جیسے دوست اپنے بھانجے عون و محمد ع اپنے بھائی حسن کی شبیہ بھتیجا شہزادہ قاسم علیہ السلام کا ٹکڑے ٹکڑے لاشہ گٹھری میں سمیٹا اپنے ہم شکل پیمبر بیٹے کے سینے سے برچھی نکالنا پھر جوان بیٹے کی پکار پر میدان جنگ میں جانا اور بیٹے کی لاش کے اٹھانے سے غم کی وجہ سے کمر جھک جانا۔ اپنے عباس علمدار بھائی کا شہید ہونا بازو کا قلم شدہ لاشہ حسین علیہ السلام جیسے صابر کی صبر کی انتہا ہونا۔پھر بھی اشقیا کے ظلم تھمنے نہ پائے۔ تو خلیل اللہ کے خلیل وارٹ نے اپنا ششماہا علی اصغر علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں پیش کیا حرملہ ملعون نے سہ پھلہ تیر حلقوم شہزادہ علی اصغر کے پیوست کیا تو معصوم کی مسکراہٹ نے صابر امام کی گود میں شہادت پائی حتیٰ حسین علیہ السلام نے وہ تکالیف، صعو بتیں برداشت کیں جو کسی نبی ع کے حصے میں بھی نہ ائیں اور حق تعالیٰ کی راہ میں خود کو قربان کرنے کے لیئے پیش کیا اور دشمنوں کی صفوں میں ہلچل مچ گئی یقیناً ان حالات میں مولا حسین علیہ السلام نے اپنے بابا کو پکارا ہوگا کہ بابا اپنے تین دن کے پیاسے کی جنگ دیکھیں ۔جب نفس متمعینا سے رب راضی ہوگیا آپ نے رب اکبر کے حضور اپنا سر سجدے میں رکھدیا پھر ہر جانب سے پتھر، تلواریں، نیزے، بھالے تھے اور میرے آقا کا جسم اطہر تھا۔اتنی قربانیوں کے باوجود ابھی اہلیبیت علیہ السلام کا امتحان ختم نہ ہواجہاد اصغر ختم ہوا اور جہاد اکبر شروع ہوا خیام میں آگ لگی ہے بی بی زینب سلام اللہ وقت کے امام بیمار کربلا حضرت سجاد علیہ السلام سے پوچھتی ہیں کہ جل جائیں یا جلتے خیام سے باہر نکل جائیں۔ بچوں خواتین کو یکجا کیا جناب زینبِ سلام اللہ علیہا نے جلتے خیمے سے اپنے امام بھتیجے کو باہر نکالا بیبیوں کی ردائیں لٹیں۔ جناب سکینہ سلام اللہ علیہا کو رات میں بابا کے سینے سے لپٹا پایا۔پھر مصیبتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا ہاتھوں اور گلے میں رسن بندھے جن بیبیوں نے کبھی گھر میں نہ چلنا جانتی تھیں انھیں پیدل چلنا پڑا اونٹوں بغیر کجاوے پر بیٹھنا پڑا۔جس راستے سے گزرتیں لوگوں کا ہجوم ہوتا، پتھروں کی بارش ہوتی اعلان کیا جاتا باغی اگئے۔ کئی بازاروں اور شہروں کا سفر کرنے کے بعد قافلہ ،اور قیدیوں کو دمشق سے باہر تین دن تک روکا جاتا ہے۔ وجہ محل اور شہر میں کم لوگ تھے نیزوں پر بلند شہدا کے سر ہیں جو سارے راستے بی بی زینب اور قیدیوں کے ضبط کا امتحان لے رہےتھے۔ قیدیوں کا قافلہ یزیدی دربار پہنچا بی بی زینب سارے راستے چادر کا سوال کرتی رہیں دربار میں داخل ہوا۔
بالوں سے چہرہ چھپائے بی بی زینب سلام اللہ علیہا بی بی فضہ کے پیچھے منہ چھپائے کھڑی رہیں یزید لعین شراب کے نشے میں دہت فتح کا جشن تین دن تک منایا جاتا ہے لیکن یزید پلید کی حقیقت سے لوگوں کو آگاہ کرنا اور اپنا تعارف کروانا کہ یزید نے اہلیبیت اطہار کے ساتھ کیا ظلم جور روا رکھا ہے خاص کر اسلامی قانون کی کس طرح دھجیاں بکھیر یں ہیں یزید نے۔ اسے آشکار کرنا اور قیدیوں کی واحد امید آپ تھیں حضرت سجاد تو بیمار تھے۔ جب قیدیوں کو دربار یزید میں پیش کیا جاتا ہے اور یزید کی گستاخیاں حد سے تجاوز کرتی ہیں تو علی علیہ السلام کی علی بیٹی لہجہ علی علیہ السلام میں خطبہ ارشاد فرماتی ہیں کہ “اے یزيد اگر چہ حادثات زمانہ نے ہمیں اس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے اور مجھے قیدی بنایا گیا ہے لیکن جان لے میرے نزدیک تیری طاقت کچھ بھی نہیں ہے۔ خدا کی قسم، خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی اس کے سوا کسی اور سے گلہ و شکوہ بھی نہیں کروں گی۔ اے یزید مکر و حیلے کے ذریعہ تو ہم لوگوں سے جتنی دشمنی کر سکتا ہے کر لے۔ ہم اہل بیت پیغمبر (ص) سے دشمنی کے لیے تو جتنی بھی سازشیں کر سکتا ہے کر لے لیکن خدا کی قسم تو ہمارے نام کو لوگوں کے دل و ذہن اور تاریخ سے نہیں مٹا سکتا اور چراغ وحی کو نہیں بجھا سکتا تو ہماری حیات اور ہمارے افتخارات کو نہیں مٹا سکتا اور اسی طرح تو اپنے دامن پر لگے ننگ و عار کے بدنما داغ کو بھی نہیں دھوسکتا، خدا کی نفرین و لعنت ہو ظالموں اور ستمگروں پر” آپکے خطبے نے تلوار سے زیادہ گہرا وار کر کے یزید کو یزید کے دربار میں ہی رسوا کر دیا۔اس کے ارادوں کو ملیا میٹ کر دیا۔ آپکو قید کیا گیا بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا کو اندھیری کوٹھڑی میں الگ قید کیا گیا جہا ں آپ پر ہونے والے ظلم کی طویل تاریک راتیں ہیں آخر آپکی بھی شہادت ہو گئی۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا نے نہ صرف کربلا میں اپنے بھائی حسین علیہ السلام پر اپنے بیٹے عون و محمد قربان کیئے بلکہ کر بلا سے شام تک اور شام سے واپسی تک کے سفر میں آپکی ثابت قدمی اور قربانی کی مثال پوری تاریخ اسلامی میں نہیں ملتی گو آپ نے جہاد اکبر لڑا اور فتح یاب ہوئیں جس نے اسلام کی ڈوبتی نبض کو رہتی دنیا تک دوام بخش دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں