ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح! (سید صفدر رضا)

یہ 1875 کی بات ہے کہ کاٹھیا واڑ (گجرات) کے گاؤں پنیلی سے ایک خاندان کراچی منتقل ہوا۔ یعنی جناح بھائی پونجا اور انکی بیگم مٹھی بائی کراچی منتقل ہونے سے قبل رشتہ ازدواج میں بندھ چکے تھے۔ کراچی ان دنوں بمبئی کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ اور پونجا جناح ایک تاجر تھے۔ آپ اناج، سوت، اون کے علاوہ دیگر اشیاء کو بیرون ممالک پرامد کیا کرتے تھے۔ اور ان دنوں کراچی معاشی ترقی کی منازل طے کر رہا تھا۔ اور یہاں معاش کی غرض سے آنے والے کے گھر جو آج بھی وزیر مینشن کے نام سے مشہور ہے ایک فرزند کی پیدائش ہوتی ہے۔ تاریخ پیدائش اگرچہ قومی سطح پر 25 دسمبر 1876 ہے۔ لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ سکول ریکارڈ کے مطابق 8 اکتوبر 1875 ہے۔ اس بچے کا نام محمد علی جناح بھائی تھا۔ آپکا تعلق پیدائشی طور پر گجراتی گھرانے کے شش امامیہ اسماعیلی فرقے سے تھا لیکن بعد میں آپ نے اثناء عشری مسلک اختیار کیا اور تادم مرگ اس پر ہی زندگی گزاری۔ اور ہمہ وقت ساتھ رہنے والی فاطمہ جناح بھی اس پر قائم رہیں۔ آپ کو چھ سال کی عمر میں سندھ مدرستہ الاسلام داخل کیا گیا۔ جہاں آپ مثالی طالب علم ثابت نہ ہوئے۔ آپ کے والد تجارت سے تعلق رکھنے کی وجہ سے آپ کو ریاضی کی تعلیم دلوانا چاہتے تھے جو آپکو پسند نہ تھی۔ بمبئی میں اپکی خالہ رہتی تھیں وہ ملنے آئیں تھیں اپنے ہمراہ بمبئی لے آئیں جناح کو خالہ سے خاص انسیت تھی۔ لہذا والدہ کی مرضی کے بر عکس آپ خالہ کے ساتھ اگئے۔ آپ کو گوکلداس تین پرائمری سکول میں داخل کروایا گیا۔ لیکن آپ اپنی مضطرب طبعیت کے باعث چھ سات ماہ بعد ہی کراچی واپس آگئے۔ آپ کا داخلہ سندھ مدرستہ الاسلام میں کرایا گیا۔ لیکن وہاں سے تعلیمی عدم دلچسپی اور دیگر مشاغل میں دلچسپی اور عدم حاضری کی وجہ سے سکول سے نام خارج ہوا۔ پھر اپکو کرسچن مشنری سوسائٹی ہائی سکول میں تعلیمی تواتر قائم رکھنے کی غرض سے داخل کروایا گیا۔ اسی اتنا میں پونجا جناح کے کاروباری رفیق نے محمد علی جناح کو لندن کی دعوت دی اور انٹرنشپ کی پیشکش کی تو اپ نے فورا قبول فرمالی مگر والدہ کی محبت کہیں کہ وہ آڑے آگئی۔ آپ بچپن ہی سے نفیس عادات کے مالک تھے۔ آپکی خوش لباسی مثالی تھی۔وہ اپنے ہمجولیوں کو کنچے کھیلنے سے منع فرماتے۔ کہ لباس گندہ ہوتا ہے۔ پتنگ اڑانے والوں سے کہتےپتنگ کے ساتھ بلندی پر نظر رکھتے ہوئے پستی کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ کبھی پتنگ ہی ھاتھ سے نکل جائے۔ آپ خود کرکٹ کھیلنا پسند فرماتےاور بلیرڈ کے بھی شوقین تھے۔ اور دوستوں کو کرکٹ کی ترغیب دیتے۔ بات ہو رہی تھی آپکے لندن جانے کی آپکی والدہ ماجدہ آپکے سر پر سہرا سجا دیکھنا چاہتی تھیں طے پایا کہ لندن جانے سے قبل جناح کی شادی کر دی جائے تاکہ لندن سے واپسی کی کوئی وجہ ہو آپکی شادی آپکے والد کے آبائی گاؤں یعنی پنیلی سے تعلق رکھنے والی ایمی بائی سے طے پا گئی۔ 1892 میں شادی کے وقت پنیلی میں تقریب منعقد ہوئی۔ اب آپ لندن جانے کے لیئے ماں کی رضا بھی حاصل کر چکے تھے۔اپ کے لندن روانہ ہو نے کے کچھ عرصہ بعد ہی آپکی شریک حیات داغ مفارقت دے گئیں۔ آپکی والدہ بھی آپ کے ساتھ لندن قیام کے دوران چل بسیں۔ یکے بعد دیگرے صدموں نے آپ کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ لندن میں آپ نے لنکن ان جو قانون کی تعلیم کے لیئے جانی جانے والی درسگاہ تھی۔ اس کا انتخاب اس لیئے کیا کہ دنیا کو قانون دینے والی شخصیات میں سب سے پہلے نمبر پر سب سے بالا نام ہمارے آقا نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تھا۔ اور اس عاشق رسول نے اس ہی بات پر اس درسگاہ کا انتخاب فرمایا۔ بیوی اور والدہ کی وفات کے بعد آپ کی شخصیت میں بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔اپ کی مکمل توجہ حصول علم پر مرکوز ہو گئی تھی۔ آپ اس دوران ہاؤس آف کامنز بھی جایا کرتے جہاں مختلف شخصیات سے آپکا میل جول بڑھا۔ اور وہاں برطانوی حکومتی امورکے مطالعے کا موقع ملا۔ 1896 میں یہ قانون دان بن کر بمبئی لوٹ کر عملی زندگی کا آغاز فرماتے ہیں آپ کو اسوقت کے واحد مسلم بیرسٹر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے لیکن اپنی وکالت کے ابتدائی سالوں میں کوئی زیادہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ 1900 میں آپ کو بمبئی کے ہی پریزیڈنسی مجسٹریٹ کی خالی سیٹ پر قائم مقام کی حیثیت سے فرائض نبھائے کا موقع ملا۔ جس پر 1500 اعزازیہ ملتا تھا جو اس وقت خاصی بڑی رقم تھی۔ مگر آپ چھ ماہ بعد ہی مستقل ہونے کی بجائے اپنی نشست سے یہ کہتے ہوئے سبکدوش ہوئے کہ اتنی رقم تو میں یومیہ کما سکتا ہوں 1904 میں آپ نے عملی طور پر سیاست میں قدم رکھتے ہوئے بمبئی میں کانگریس کے بیسویں سالانہ اجلاس میں شرکت کی آپ کو ہندو مسلم اتحاد کا بڑا حامی سمجھا جاتا تھا۔ ادھر آپکی وکالت کو عروج اس وقت ملنا شروع ہوا جب آپ نے 1905 میں کانگریسی رہنما بال گنگا دھر تلک پر حکومت برطانیہ کے قائم کردہ “نقص امن ” کے مقدمے کی پیروی میں دلائل دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ایک ہندوستانی آزاد اور خودمختار ریاست کی بات کرتا ہے وہ کیوں کر نقص امن یا غداری کا باعث بن سکتا ہےآپ مقدمہ تو نہ جیت سکے مگر لوگ آپ کی قابلیت کا اعتراف کرنے لگے۔ 1906 میں آغا خان سوم نے گورنر جنرل لارڈ منٹو کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہوئے استفسار کیا کہ آئینی اصلاحات میں مسلمانوں کو ھندو اکثریت کے تسلط سے بچایا جا سکے گا؟۔ آپ نے اس کے ردعمل میں گجراتی اخبار کے مدیر کو خط میں کہا کہ یہ کیسے مسلم قوم کی نمائندگی کر سکتے ہیں جبکہ یہ ان کے منتخب نمائندہ نہ ہیں۔ 1906 میں جب ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی جارہی تھی تو آپ نے اس کی مخالفت کی۔ جبکہ وائسرائے نے بھی اہمیت نہ دی تقسیم بنگال کو آل انڈیا مسلم لیگ والوں نے اپنے خلاف تو قرار دیا مگر انکی جانب سے بھر پور مزاحمت نہ کرسکی۔ کیونکہ اپ 1906 میں ہی کانگرس میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد دیگر ہندو رہنماؤں کی طرح مکمل آزادی کے حامل نہ تھے مگر ہندوستان کوصنعتی، ٹقافتی، قانونی، تعلیمی اعتبار سے برطانیہ کے زیر نگیں چاہتے تھے۔ 1907 میں آپ نے مشہور زمانہ کاوکس کا مقدمہ لڑا۔ وکالت اور سیاست ساتھ ساتھ نکھرنے لگی۔ آپکی سندھرست کمیٹی کی وجہ سے ڈیرہ دون میں ہندوستانی فوجی اکادمی کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا۔ رفتہ رفتہ کانگرس سے پرانے لوگ کم ہوتے گئے نئے آنے والوں سے جناح کےخیالات میں مماثلت کم ہوتی گئی۔ اور بالآخر کانگرس میں مسلمانوں کے خلاف تعصبات پروان چڑھتا گیا اور جناح نے تعصب کو کم کرنے کی غرض سے مسلم لیگ اور کانگرس کے درمیان میثاق لکھنؤ طے کروایا لیکن اس معاہدے پر مکمل طور پر عمل نہ ہو سکا۔ ادھر چھٹیوں کی غرض سے دارجلنگ جانے پر آپکی ملاقات “رتن بائی” سے ہوئی آپ نے 16 سالہ رتی بائی کا 18 سال کا ہونے کا انتظار کیا جب 18 برس کی ہو گئیں آپ بمبئی کے پارسی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ پھر اپ نے اسلام قبول کیا یوں دونوں 19 اپریل 1918 کو رشتہ ازدواج میں بندھ گئے اور رتن بائی نے اسلامی نام مریم جناح رکھ لیا۔ آپکی شادی کو اپنے پرائےبلکہ رتن بائی کے عزیزوں میں بھی پزیرائی نہ ملی۔ اور 1919 میں آپکے گھر بیٹی کی پیدائش ہوتی ہے۔ اب سیاسی میدان میں ہندوں رہنماؤں کی متعصبانہ رویوں کی حالت دیکھتے ہوئے اور گاندھی کی جلیانوالہ باغ کے واقعے کے بعد ہندوستان آمد اور اپنے لباس اور رہن سہن کیوجہ سے کانگرس میں اثر رسوخ بڑھانے کی وجہ اور ستیاگری تحریک نے سلطنت عثمانیہ کی حمایت کرکے مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے میں گاندھی کامیاب نظر ائے۔اپ نےگاندھی کی ستیا گری تحریک کو سیاسی آنارگی سے تشبیہ قرار دیا۔ جس کی وجہ سے 1920 کے کانگرس کے اجلاس میں بہت سے ہندو رہنماؤں نے جناح کے نظریات کی مخالفت میں تقاریر داغیں۔ کانگرس کی گاندھی کی بڑھتی حمایت اور جناح کے نظریات کی مخالفت کی وجہ کانگریس کو چھوڑنے کی وجہ بنی۔ اور تمام عہدوں اور ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے۔ علامہ اقبال نے جناح کی ذہانت کو پرکھتے ہوئے لندن میں خودساختہ جلاوطنی ختم کر کے ہندوستان آنے کی دعوت دی اور مسلمانوں کی نمائندگی پر مجبور کیا علامہ اقبال کی مشاورت سے آپ نے مسلمانوں کے لئے الگ مملکت کی کوششیں جاری رکھیں آپ نے گول میز کانفرنس میں بھی شرکت کی جس میں آپ صرف امت مسلماں کے رہنما سمجھے جانے لگے۔ 1929 میں آپ کے چودہ نکات نے بر صغیر کی سیاست کےرخ کی سمت متعین کر دی آپ باقاعدہ طور پر مسلم رہنما کی حیثیت سے پہچا نے جانے لگے۔مگر اسی ہی سال یعنی 1929 میں آپ کی بیوی انتقال فرما گئیں جو 1928 میں آپ سےالگ ہو گئیں تھیں۔ جناح کی سیاسی مصروفیات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا تھا اور آپکی معاون محترمہ فاطمہ جناح آپکی ضروریات کا خیال رکھتیں اور آپکے شانہ بشانہ جدوجہد میں شامل رہتیں 1940 میں منٹو پارک لاہور میں الگ مملکت کی قرار داد پیش ہوتی ہے جسے ہندو پریس نے قرار داد پاکستان کا نام دیا۔ اب مسلم لیگ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی جماعت بن کر ابھری۔اس قرار داد کے دو سال بعد 1942 میں ریاستوں کی تقسیم کی قرارداد منظور ہوئی جس کے چار سال بعد برطانیہ نےاقتدار کی منتقلی کا فیصلہ کیا جس کے آئینی خاکے کے ساتھ کا یینہ مشن کی بھارت آمد ہوئی جس میں صوبوں کو فیڈریشن کے قیام کا انتخاب کرنا ہوگا۔ کانگریس نے اس منصوبے کو ناقابل عمل ہونے کااعتراض اٹھایا۔ جناح نے بھی مخالفت میں ووٹ دیا۔اور جناح پوری طاقت سے مسلمانوں کی نمائندگی فرما رہے تھے۔ آپ کو کہا گیا کہ طملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح۔ آپ کو قائد اعظم تسلیم کیا گیا۔ آپ نے اپنی قیادت میں 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پر اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی پہلی آزاد مملکت کی سحر کا اجالا کر کے مسلمانان برصغیر کو غلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکالااپ ٹی بی کے مرض میں مبتلا تھے مگر آپ نے جدو جہد آزادی میں کسی کو اسکا علم نہ ہونے دیا آپ پاکستان کی آزادی کے قریباً ایک سال بعد ہی اپنے پیدائشی شہر میں 11 ستمبر 1948 کو خالق حقیقی سے جا ملے آپ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل تھے اور آپ ایک روپیہ تنخواہ لیتے تھے اور آپ کو بانی پاکستان ہونے کا شرف بھی حاصل ہے آپ بابائے قوم بھی کہلائے۔ آپ کی جدوجہد مسلسل کی یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے قلم آپ کی زندگی کے بہت سے پہلو زیر تحریر نہ لانے کا مجرم اور میری کم علمی کا اعتراف کرتا ہے ہم صرف قائد کے ایک فرمان پر عمل کرکے دنیا کی عظیم قوم بن سکتے ہیں “ایمان اتحاد تنظیم”


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں