جنسی زیادتی کی سزا سرعام پھانسی؟ (ساجد خان)

لاہور زیادتی کیس پر وقار ذکاء نے ایک ویڈیو جاری کی ہے۔ جس میں جرم اور مجرم کی مذمت کرنے سے زیادہ فواد چوہدری، شیریں مزاری اور ان دوسرے افراد کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا کہ جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے زیادتی کیس میں سرعام پھانسی کے بل کی مخالفت کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے سرعام پھانسی دینے کے قانون کی منظور کرنے کے حق میں اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کی دھمکی بھی دے دی۔ وقار ذکاء ویسے تو انتہائی گھٹیا شخص ہے ہی لیکن موقع کی مناسبت سے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی طرح رنگ بدلنے کی مہارت بھی رکھتا ہے۔ فحاشی کا معاملہ ہو تو وقار ذکاء آپ کو سرفہرست نظر آئے گا اور اگر اسلام کے نام پر فائدہ اٹھانے کا موقع ہو تو وقار ذکاء مفتی اعظم بن جائے گا۔ یہ پبلک اسٹنٹ کراچی کے شہری کو سجتے ہیں کیونکہ کراچی میں جس نے بھی تھوڑی سی اچھی اداکاری کی، وہ مستقبل کا ایم این اے یا ایم پی اے کنفرم ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اور فکس اٹ کا جہانگیر خان زندہ مثالیں موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ وقار ذکاء بھی یہی امید لگائے بیٹھا ہو لیکن حقیقت میں سرعام پھانسی بھی اس مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ جو قانون موجود ہے اسی پر ایمان داری کے ساتھ عمل کر دیا جائے تو شاید ہی کوئی مجرم سزا سے بچ پائے اور اس طرح کے جرائم میں خود بخود کمی آنا شروع ہو جائے گی۔

سرعام پھانسی سے آپ وقتی طور پر خوف تو پیدا کر سکتے ہیں مگر اس کے بعد دو کام ہوں گے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خوف بھی ختم ہو جائے گا اور دوسرا ملزم پولیس کو پہلے سے زیادہ رقم رشوت کی صورت میں دینے لگ جائے گا یعنی کہ جرم کرنے کے بعد سزا سے بچنے کی قیمت بڑھ جائے گی۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ خوف کیسے ختم ہو جائے گا ؟ ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں کہ میں کئی سالوں سے سگریٹ نوشی کر رہا ہوں۔ محکمہ صحت نے چند سال پہلے سگریٹ کی ڈبی پر سگریٹ نوشی سے متاثرہ افراد کی تصاویر شائع کرنا شروع کر دیں۔ وہ تصاویر اتنی خوفناک تھیں کہ سوچ کر ہی دل دہل جاتا تھا کہ خدا نخواستہ اگر میرے ساتھ ایسا ہو گیا تو کیا ہو گا۔ بہت سے دوستوں نے تب ان تصاویر کی وجہ سے سگریٹ نوشی ترک کر دی مگر آہستہ آہستہ ہمیں وہ تصاویر عام سی نظر آنے لگ گئیں اور جنہوں نے سگریٹ نوشی ترک کر دی تھی،وہ دوبارہ سے سگریٹ پینے لگ گئے۔ آج بھی وہ تصاویر سگریٹ کی ڈبیہ پر موجود ہے مگر اس کی طرف خیال ہی نہیں جاتا کیونکہ اسے روز روز دیکھ کر ہمارے دل سے اس بات کا خوف نکل گیا ہے۔

ایک عام انسان اپنے عقیدے کی عبادت گاہ میں جاتا ہے تو دل میں نہایت احترام ہوتا ہے خواہ مسلمان مسجد میں جائے،ہندو مندر میں جائے یا عیسائی چرچ میں جائے لیکن اسی مسجد،مندر اور چرچ میں زیادتی کے لاتعداد کیسز سامنے آئے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ ایک عام انسان کو تربیت دی جاتی ہے کہ عبادت گاہ نہایت قابل احترام عمارت ہوتی ہے جو تمھارے خدا یا بھگوان کا گھر ہوتا ہے لہذا وہ انسان جتنا بھی برا ہو گا، عبادت گاہ میں غلط سوچ قریب بھی نہیں لائے گا کیونکہ اس کے دل میں خوف ہوتا ہے لیکن جو لوگ اسی عبادت گاہ میں غلط کاریاں کرتے ہیں، ان کا ہر وقت اسی عبادت گاہ سے تعلق رہتا ہے تو ان کے دل سے خوف ختم ہو جاتا ہے اور وہ وہاں کچھ بھی کرنے سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔ اس لئے صرف خوف پھیلا کر جرم روکنے کا طریقہ بھی ایک وقت پر آ کر غیر موثر ہو جاتا ہے۔ سعودی عرب میں منشیات لانے پر سرعام سر قلم کر دیا جاتا ہے لیکن کیا اس سے سعودی عرب میں منشیات ختم ہو گئی؟

پاکستان سے ہر سال درجنوں افراد منشیات لے جانے کی کوشش میں پکڑے جاتے ہیں اور سر قلم کر دیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ جان جوکھوں میں ڈال کر منشیات لے جانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور سعودی عرب میں منشیات استعمال بھی ہوتی ہے بس فرق یہ ہے کہ اگر سعودی انتظامیہ اسمگلرز کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرے تو سعودی عرب میں منشیات کی تعداد کئی گنا بڑھ جائے۔ اس لئے صرف سخت قانون سازی کرنے سے جرائم ختم نہیں ہوتے البتہ اس میں کمی ضرور کی جا سکتی ہے۔

اس کا سب سے آسان اور موثر طریقہ یہ ہے کہ محکمہ پولیس کچھ معاملات میں ایک اصول وضع کر لے کہ فلاں معاملہ میں نا ہی رشوت لے کر مجرم کو بیگناہ کیا جائے گا، نا ہی سفارش مانی جائے گی اور نا ہی سیاسی اختلاف یا ذاتی اختلاف پر کسی کے خلاف زیادتی کا جھوٹا مقدمہ درج کیا جائے گا یا اس طرح کے حساس کیسز پر اعلیٰ افسران کی سخت نگرانی ہونی چاہئے کہ تفتیشی افسر کیس کو کمزور کرنے کی جرات ہی نا کر سکے۔

اس بات پر کوئی شخص یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ تو ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہوتا ہے جہاں ہر چیز کی آزادی ہوتی ہے پھر پاکستان پر ہی تنقید کیوں۔ اس بات میں حقیقت ہے کہ مغرب کے آزاد معاشرے میں بھی جنسی زیادتی کے کیسز ہوتے ہیں مگر اہم بات یہ ہے کہ وہاں ان کیسز کو معمولی نہیں سمجھا جاتا اور نا ہی ہماری پولیس کی طرح عدم توجہی کا شکار ہوتے ہیں۔ فرض کریں کہ اگر وہاں کی پولیس بھی جنسی زیادتی کے کیسز کو غیر سنجیدہ لیتی تو شاید وہاں اس طرح کے کیسز آج کی تعداد سے کئی گنا ہوتے۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں برطانیہ گیا تو آغاز کے دنوں میں ہی ایک دوست کے گھر ٹی وی دیکھ رہا تھا جہاں ایک اہم خبر چل رہی تھی کہ ایک شخص کو جنسی زیادتی اور قتل کے مقدمے میں ستر سال بعد گرفتار کر لیا۔ وہ شخص اس وقت ستاسی سال کا بوڑھا شخص تھا اور اس نے سترہ سال کی عمر میں ایک بچی سے جنسی زیادتی کے بعد قتل کر کے لاش پھینک دی تھی۔ جو اس وقت اس دکان پر آیا کرتی تھی جہاں وہ لڑکا کام کیا کرتا تھا۔ یہ خبر میرے لئے بہت حیرت انگیز تھی، میں نے دوست سے ذکر کیا تو اس نے کہا کہ برطانیہ پولیس جنسی زیادتی کے کیس کو کبھی بند نہیں کرتی اور وقتاً فوقتاً اس پر تفتیش جاری رہتی ہے خواہ اس میں پچاس سال ہی کیوں نا لگ جائیں۔

مغرب جسے ہم کفار کہہ کر حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، وہ اگر دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں تو ان میں انسانیت زندہ ہے تبھی مسلمانوں کی اکثریت خواہش رکھتی ہے کہ وہ مسلم اکثریتی ملک کو چھوڑ کر کفار کے ملک میں زندگی گزارے۔ ہمیں ان معاملات پر سنجیدگی سے توجہ دینی پڑے گی اور یہ ذمہ داری صرف ریاست پر عائد نہیں ہوتی اور نا ہی پارلیمنٹ کے سخت قوانین بنانے سے مسئلہ حل ہو گا،جب تک کہ تفتیشی افسر ایمان داری سے کام نہیں کرے گا۔

ہمیں تفتیش کے معاملے کو انتہائی شفاف بنانا ہو گا اور ایسے کیسز پر پولیس میں یہ قانون ہونا چاہئے کہ نا ہی اس میں کوتاہی برتی جائے گی اور نا ہی اس طرح کے کیس کو عام سمجھا جائے گا۔ آپ لاکھ سرعام پھانسی کے قوانین پاس کر لیں لیکن اگر پولیس سنجیدگی نہیں دکھائے گی،وہ سب قوانین دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ اب وقت ہے کہ پولیس اصلاحات لائی جائیں، پولیس میں جدید ٹیکنالوجی متعارف کروائی جائے تاکہ پولیس گورا شاہی دور کی طرح حکمرانوں کے مفادات کے تحفظ کی ذمہ دار ہونے کے بجائے عوام کی حفاظت کے لئے استعمال ہو۔ جب تک نیک نیتی سے اصلاحات نہیں کی جاتیں تب تک آپ جتنے بھی سخت قوانین بنا دیں، حالات بہتر نہیں ہو پائیں گے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پولیس اصلاحات کرے گا کون۔

کل تک عمران خان اور ان کی جماعت ہر روز پولیس اصلاحات پر زور دیتے نظر آتے تھے مگر جب سے اقتدار میں آئے ہیں، اصلاحات لانے کے بجائے الٹا پولیس کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اقتدار ملتے ہی حکمرانوں کو احساس ہونے لگ جاتا ہے کہ پولیس ان کی ذاتی فورس ہے، جس کے ذریعے ہم نے اپوزیشن اور عوام کو کنٹرول کرنا ہے اور وہ فلاحی کام کر کے عوام کو مطمئن کرنے کے بجائے پولیس سے زبردستی خاموش رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔

جب تک یہ سوچ رہے گی تب تک ملک میں اس طرح کے واقعات پر کنٹرول کرنے کی کوشش کرنا ہی بیکار ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں