ہمارا قومی مشغلہ victim blaming (ساجد خان)

گزشتہ دنوں لاہور موٹروے پر ہونے والے زیادتی کیس کے اندوہناک واقعے پر ڈی آئی جی پولیس عمر شیخ نے اپنے انٹرویو میں زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون کو بھی ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ وہ رات کے وقت اکیلے کیوں سفر کر رہی تھیں اور اگر سفر کرنا ہی تھا تو موٹروے کے بجائے جی ٹی روڈ سے سفر کرتیں جو کہ زیادہ محفوظ ہے۔
اس بیان کے بعد الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر سخت تنقید کی جا رہی ہے کہ پولیس اپنی ناکامی چھپانے کی خاطر ظلم کا شکار ہونے والی خاتون کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ایک عام شہری اگر یہ عذر پیش کرتا تو شاید اتنی حیرانی نا ہوتی لیکن آپ کا محافظ ہی ایسی بات کرنے لگ جائے تو عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں مظلوم کو ہی مورد الزام ٹھہرانے کا واقعہ نا ہی پہلا ہے اور نا ہی آخری بلکہ ہمیشہ ہر واقعے کے بعد اس طرح کی آوازیں سنائی دیتی رہی ہیں۔

اس سے قبل بھی اگر کسی خاتون سے زیادتی کا واقعہ پیش آیا تو یہی کہا جاتا رہا کہ یہ جو لڑکیاں جینز پہنتی ہیں یا بغیر حجاب کے گھر سے باہر نکلتی ہیں، اس کی وجہ سے ان کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے لیکن یہ عذر نجانے اس وقت کہاں جاتا ہے جب چار سال کی بچی کے ساتھ بھی جنسی زیادتی کی جاتی ہے اور نجانے اس واقعہ میں چار سالہ بچی نے ایسا کیا غلط کیا ہوتا ہے،جس سے کسی وحشی کو شہوت کا احساس ہوا۔

مدارس میں بچوں کی جنسی زیادتی کس وجہ سے ہوتی ہے جبکہ ان پر تو حجاب کرنے کا حکم ہی نہیں ہوتا۔

ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے ظالم پر تنقید کرنے کے بجائے الٹا victim blaming ایک عام روایت ہے بلکہ اسے برائی ہی نہیں سمجھا جاتا۔
پاکستان میں اہل تشیع کا قتل عام ہوا، جب بھی لاش گری ایک بہت بڑی تعداد کہتی نظر آئی کہ شیعہ اگر اصحاب کرام کو برا بھلا کہنا چھوڑ دیتے تو یہ سب کچھ نا ہوتا یعنی کہ ایک انسان کی جان جو حرمت کعبہ سے بھی افضل ہے،اس پر اسے بغیر جانے ہی الزام لگا دیا جاتا ہے کہ وہ کیونکہ برا بھلا کہتا تھا، اس لئے مار دیا جبکہ اس قتل عام میں دو ماہ کے بچے بھی مارے گئے جو بول بھی نہیں سکتے تھے مگر اس کے لئے بھی یہی عذر گھڑا گیا۔

یہ صرف مذہبی یا مسلکی بنیادوں پر نہیں ہوتا بلکہ نسلی بنیادوں پر بھی یہی طریقہ اپنایا جاتا ہے۔

وزیرستان میں کسی پشتون پر ظلم ہو جائے تو بجائے ظلم کی مذمت کرنے کے الٹا اسے افغان ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے کہ یہ ملک سے غداری کر رہا تھا،اس لئے غدار کی سزا موت ہے۔

بلوچستان میں کوئی واقعہ ہو جائے تو فوراً اس پر غداری کا لیبل لگا کر را کے ساتھ جوڑ کر قاتل کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔

یہاں تک کہ ایک عام شخص کے ساتھ بھی کچھ ظلم ہوتا نظر آئے تو ہر شخص یہی کہتا نظر آئے گا کہ کچھ نا کچھ تو کیا ہو گا گویا ہم حقائق سامنے آنے سے پہلے ہی ارادی طور پر ظلم کو مشکوک بنانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ہم نا ہی ظالم کو جانتے ہوتے ہیں اور نا ہی مظلوم کو مگر اکثریت مظلوم کو مشکوک بنانے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔

اسی نظریہ کی وجہ سے ہم نے گزشتہ دو دہائیوں میں اسی ہزار لاشیں اٹھائیں مگر آج تک ہم قاتلین کو نا ہی پہچان سکے اور نا ہی بینقاب کر سکے کیونکہ جب بھی کوئی دہشت گرد حملہ آور ہوتا تو فورآ یہی آوازیں بلند ہونا شروع ہو جاتیں کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔

بیشک دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر دہشت گرد کا تو مذہب ہوتا ہے،جس کی بنیاد پر وہ حملہ آور ہوتا ہے۔

کوئی شیعہ قتل کر دیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ مت کہو کہ شیعہ مرا ہے بلکہ یہ کہو کہ ایک پاکستانی مرا ہے لیکن کیا کبھی پاکستانی کو مارنے والے کو بینقاب کیا گیا ؟

یہ جو ہر واقعہ پر اگر مگر کہہ کر مذمت کرتے ہیں درحقیقت یہ بھی ظالم کے ساتھی ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ رویہ تبدیل کرنا چاہئے اور آپ اگر مظلوم کے ساتھ ہیں تو بغیر اگر مگر استعمال کئے،اس کے حق میں آواز بلند کریں اور اگر آپ ظالم کے ساتھ ہیں تو کھل کر اس کی حمایت کریں بس منافقت سے پرہیز کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں