واقعہ کربلا اور دیسی ملحدین (ساجد خان)

پاکستان میں جس طرح دو نمبر مجاہدین اور عاشق رسول پائے جاتے ہیں بالکل اسی طرح دو نمبر ملحدین بھی پائے جاتے ہیں۔ دیسی ملحدین سارا سال باہمی رضامندی اتفاق کے ساتھ مذہب اور فرقہ سے برات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں لیکن محرم الحرام کے اعلان کے ساتھ ہی دو فرقے بن جاتے ہیں۔

ایک فرقہ امام حسین علیہ السلام کی حمایت کرتا نظر آتا ہے تو دوسرا فرقہ یزیدی فوج کا کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔ مجھے بالکل بھی سمجھ نہیں آتی کہ جب ایک ملحد مذہب سے بیزار ہو کر آزاد ہو جاتا ہے تو پھر وہ آزاد زندگی کیوں نہیں گزارتا۔ جب ملحد نے بھی اپنی ساری زندگی اسی مذہبی بحث اور لڑائی میں ہی گزارنی ہے تو پھر مذہب سے لاتعلقی کا اعلان کس بات کا، بس فرق یہ ہوتا ہے کہ الحاد سے پہلے ملحد اپنے مخصوص مذہب یا فرقے کے علاوہ سب کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے لڑتا تھا اور الحاد کے بعد وہ سب مذاہب کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے لڑتا نظر آتا ہے۔

ان ملحدین کو میں دو نمبر اس لئے بھی کہتا ہوں کہ مذہب ترک کرنے کے بعد بھی ان کی کسی نا کسی شخصیت سے احترام کا رشتہ رہتا ہے اور اسی لئے محرم میں وہ احترام مجبور کرتا ہے کہ وہ کسی ایک فریق کا ساتھ دیں۔

اس بحث کے دوران ایک طعنہ بھی دیا جاتا ہے کہ شیعہ جتنا بھی ملحد ہو جائے مگر وہ کربلا کے معاملے پر جذباتی وابستگی ضرور رکھتا ہے۔ یہ طنز انسانیت اور الحاد کے اصولوں کے خلاف ہے کیونکہ ملحدین کا دعویٰ ہے کہ تمام مذاہب جھوٹے ہیں اور ان کی بانی شخصیات نے اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لئے لوگوں کو مذہب اور عقیدت کی زنجیر میں قید رکھا، اس لئے ہم کسی مذہب کو نہیں مانتے بلکہ صرف حق اور سچ کا ساتھ دیں گے۔

گزشتہ صدی میں پاکستان سے دور کہیں ایک نوجوان چے گویرہ ظالم نظام کے خلاف تحریک شروع کرتا ہے۔ قتل و غارت کرتا ہے، لوٹ مار بھی کرتا ہے، کچھ کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں، کچھ غلطیاں بھی سرزد ہوتی ہیں اور بالآخر اسی جدوجہد میں مارا جاتا ہے۔

ملحدین آج بھی اس کی ظالم نظام کے خلاف جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور اسے انسانیت کا ہیرو مانتے ہیں۔ اس کی جدوجہد کے اعتراف اور اسے ہیرو ماننے پر سب ملحدین متفق ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں جب بھی، جس نے بھی ظالم نظام کے خلاف آواز بلند کی، ہم اس کو ہیرو گردانتے ہیں لیکن جوں ہی بات امام حسین علیہ السلام پر آتی ہے تو ملحدین تقسیم ہو جاتے ہیں۔

مجھے ان ملحدین کی سمجھ آتی ہے جو محرم الحرام میں شیعہ ملحدین قرار پاتے ہیں کہ وہ امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد اور قربانی پر انہیں بطور ایک انسان خراج عقیدت پیش کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ جنگ کی وجہ کوئی بھی ہو مگر امام حسین علیہ السلام کے خاندان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گئے لیکن دوسرے طبقے کی بالکل سمجھ نہیں آتی کہ وہ واقعہ کربلا پر اپنے الحادی اصولوں سے کیوں منحرف ہو جاتے ہیں۔ آخر انہیں الحاد کی کس بنیاد پر امام حسین علیہ السلام غلط اور یزید ملعون حق پر لگنے لگ جاتا ہے۔

کہیں اس کی وجہ صرف یہ تو نہیں کہ امام حسین علیہ السلام اسلام کی بنیاد رکھنے والے حضرت محمد کے نواسے تھے اور اسلام اور نبیؐ سے بغض ان کی نسلوں تک بھی پہنچ گیا۔

آپ امام حسین علیہ السلام کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت الگ کر دیں۔ بحیثیت مسلمان بھی ان کی شخصیت کو مت جانچیں لیکن بطور انسان بھی وہ ایک انقلابی شخصیت نظر آتے ہیں اور مظلوم بھی۔

ایک طرف یزید ملعون جیسا فاسق حکمران اور اس کے خلاف جس کے ظلم کے خوف کی وجہ سے مدینہ منورہ کے سب شہریوں نے بیعت کر لی حالانکہ یزید ملعون کا کردار جانتے تھے کہ اس کا نا ہی اسلام سے تعلق ہے اور نا ہی انسانیت سے، تب صرف امام حسین علیہ السلام نے آواز بلند کی کہ مجھ جیسا، تجھ جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا کیونکہ بیعت کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس کے سب غلط اعمال کو تسلیم کرنے جا رہے ہیں اور امام حسین علیہ السلام جانتے تھے کہ اس طاقتور ترین حکمران کے خلاف علم بلند کرنے کا مطلب سوائے موت کے کچھ نہیں ہے مگر انہوں نے اصولوں کو زندگی پر ترجیح دی۔

آخر ملحدین کو چے گویرہ کے مقابلے میں امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد کیوں متاثر نہیں کر پاتی؟ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد میں اقتدار حاصل کرنے کا بھی عنصر شامل تھا تو یہ سوائے جہالت کے کچھ نہیں ہے کیونکہ امام حسین علیہ السلام اپنا پورا کنبہ لے کر چلے تھے۔ نا ہی مدینہ منورہ میں اور نا ہی مکہ مکرمہ میں انہوں نے فوج بنانے کی کوشش کی اور نا ہی ان دو مقدس مقامات پر حکومت بنانے کا سوچا حالانکہ اگر وہ الگ ریاست بنانا چاہتے تو مکہ و مدینہ میں انہیں یزید ملعون کی نسبت زیادہ پذیرائی مل سکتی تھی۔

اس وقت شام کی ریاست آج کے تقریباً پچاس سے زائد ممالک پر مشتمل تھی۔ آپ آج کے سب سے چھوٹے ملک کی مثال لے لیں اور صرف بہتر افراد کے ساتھ اقتدار کے لئے جنگ کرنے جائیں تو ظاہر ہے آپ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے تو کوئی کیسے سوچ سکتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام صرف بہتر افراد کے ساتھ چھپن ممالک کی ریاست پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے اور اس فوج میں بھی اسی سالہ حبیب ابن مظاہر جیسا نحیف سپاہی اور چھ ماہ کا علی اصغر جیسا کمسن فوجی جو ہتھیار اٹھانا تو کیا، ابھی خود سے بیٹھنے کے قابل ہی نہیں ہوا تھا۔

کربلا میں مورخین نے یزیدی فوج کی تعداد کم از کم دس ہزار سے کئی لاکھ تک لکھی ہے، جس میں معتبر روایت تیس ہزار لشکر کی سمجھی جاتی ہے، ہم دس ہزار فوجی کی روایت ہی لے لیں تب بھی یہ مقابلہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ کہاں بہتر افراد کی فوج اور کہاں دس ہزار افراد۔ اب اس صورت میں بھی امام حسین علیہ السلام پر اقتدار کے لالچ کا الزام لگانا سوائے بغض کے اور کچھ نہیں ہے۔

میں تکفیری گروہ سے اس قسم کے بغض کی توقع ضرور رکھتا ہوں کیونکہ وہ اہلبیت علیہ السّلام کے دشمنوں کے دفاع کو اپنا ایمان سمجھتے ہیں مگر ایسا شخص جو دین و مذہب سے بیزار ہو چکا تھا، اس کا واقعہ کربلا پر تاویلات پیش کر کے امام حسین علیہ السلام کو غلط ثابت کرنا عجیب محسوس ہوتا ہے۔

ملحدین سے میرا ایک سوال ہے کہ اگر امام حسین علیہ السلام اقتدار کی خواہش رکھتے تھے وہ اقتدار کس کے لئے حاصل کرنا چاہتے تھے۔
اپنے لئے؟
حالانکہ وہ جانتے تھے کہ دس ہزار فوجیوں سے جنگ میں زندہ رہنا ناممکن ہے۔
اپنے بھائیوں کے لئے؟
وہ سب مقتل گاہ میں سو رہے تھے۔
اپنے بیٹوں کے لئے؟
لیکن وہ تو اپنے بیٹوں کو اپنے ساتھ میدان جنگ میں لے کر آئے تھے۔
اپنے بھتیجوں اور بھانجوں کے لئے؟
وہ تو پہلے ہی کوفہ میں قتل ہونا شروع ہو گئے تھے۔

کوئی تو ایک وجہ بتا دیں، جس سے ہمیں شک ہو کہ ہاں یہ ممکن ہے کہ امام حسین علیہ السلام اقتدار چاہتے تھے۔ اگر اس خاندان کو اقتدار کی اتنی ہی چاہت ہوتی تو جنگ صفین میں نیزوں پر اٹھے قرآن کی پرواہ نہ کرتے اور اپنے دشمن کی فوج کی صفوں میں گھس کر سب کے سر قلم کر دیتے۔

امام حسن علیہ السلام دشمن فوج کی طرف سے صلح کی درخواست قبول نا کرتے اور اقتدار کے لئے جنگیں لڑتے رہتے۔ امام حسین علیہ السلام صرف اپنے اہل خانہ کے ساتھ سفر نا کرتے بلکہ مکہ و مدینہ میں ہی اپنی الگ ریاست قائم کرنے کی کوشش کرتے۔

ملحدین کا یہ گروہ چاہے جتنا دعویٰ کرے کہ ان کا اپنے سابقہ عقائد سے کوئی تعلق نہیں مگر محرم الحرام میں ان کا یزیدی خون ضرور جوش مارنے لگ جاتا ہے اور وہ حق و باطل کی بحث کو ایک طرف کر کے صرف اہلبیت علیہ السّلام کی توہین کرنا فرض سمجھتے ہیں۔

کسی نے کیا خوب کہا کہ کربلا کے بعد صرف دو مذہب رہ گئے ہیں حسینی اور یزیدی لیکن اس میں اضافہ کرتا چلوں کہ بنی نوع انسان میں صرف دو گروہ ہیں حسینی اور یزیدی خواہ آپ ملحد ہی کیوں نا ہوں، آپ یا تو حسینی ہیں یا یزیدی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں