کافر کافر شیعہ کافر؟ (ساجد خان)

آج شیعہ عالم دین علامہ امین شہیدی کی مجلس کی ایک ویڈیو دیکھی کہ جس میں وہ معاشرے سے شکوہ کرتے نظر آئے کہ ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ شیعہ کے قرآن کے چالیس پارے ہیں لیکن آج تک وہ چالیس پاروں والا قرآن ثابت نہیں کر سکے۔ اس کی کبھی کاپی ثبوت کے لئے دکھا نہیں سکے، جانتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے لیکن مسلسل یہ الزام لگایا جاتا آ رہا ہے کہ شیعہ قرآن کے چالیس پارے مانتے ہیں حالانکہ نبی کریم کے زمانے میں قرآن مجید ایک کتاب کی شکل میں تھا اور بعد کے زمانے میں اسے مہینے کے حساب سے تیس پاروں میں تقسیم کیا گیا، اب کوئی اسی قرآن مجید کو دس پاروں میں تقسیم کر دے یا چالیس پاروں میں تقسیم کر دے تو اس سے قرآن مجید پر کیا اثر پڑ جائے گا۔
آج تک یہ ثابت نہیں کر سکے کہ شیعہ سبیل میں تھوک ڈالتے ہیں مگر آج بھی یہ الزام نہایت دیدہ دلیری کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ نیاز میں سنی بچوں کا خون شامل کرتے ہیں مگر آج تک کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ہمارا بچہ کسی شیعہ نے اغواء کر کے اس کا خون یا گوشت نیاز میں ڈالا مگر یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور لوگ اس پر آج بھی یقین کرتے ہیں۔

دو تین دن پہلے فیس بک پر قمر نقیب خان کی ایک پوسٹ پر ایک کمنٹ دیکھا، جس میں وہ شخص کہہ رہا تھا کہ میرے خاندان کے کچھ لوگ شیعہ ہیں اور دوست بھی شیعہ ہیں، میں جانتا ہوں کہ یہ کتنے غلیظ ہیں، یہ قرآن کے چالیس پارے مانتے ہیں،یہ حضرت علی علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں۔ میں نے اس سے صرف اتنا کہا کہ تم نے یہ عقائد شیعہ کی کون سی کتاب میں پڑھے ہیں اور وہ یہی کہتا رہا کہ میں تم سے بہتر شیعوں کو جانتا ہوں، یہ ان کا ہی عقیدہ ہے۔

آج ہی ایک پوسٹ پر کمنٹ دیکھا کہ ایک شخص نے لکھا کہ شیعہ مشرک ہیں کیونکہ یہ عقیدہ بداء پر یقین رکھتے ہیں۔ میں نے کہا بھائی بداء کا مطلب کیا ہے۔ اس نے بولا کہ جھوٹ یعنی کہ شیعہ عقیدہ ہے کہ اللہ جھوٹ بولتا ہے معاذ اللہ۔ میں نے کہا کہ جہاں تک مجھے عربی آتی ہے،عربی میں جھوٹ کے لئے کذب کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ تم نے کون سی لغت میں بداء کا مطلب جھوٹ دیکھ لیا مگر وہ قائم رہا، تب مجھے کہنا پڑا کہ صحیح بخاری کا پہلا باب بداء کے عنوان سے ہے، اب کیا امام بخاری بھی شیعہ عقیدہ رکھتے تھے؟
اس کے بعد جواب نہیں دیا کیونکہ اس نے سنی سنائی بات پر یقین کر لیا کہ شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں۔

پاکستان میں بحیثیت شیعہ آپ کو اس طرح کے بہت سے الزامات اور سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح میں بھی ذاتی طور پر بہت سے واقعات کا عینی شاہد ہوں۔ میں نے پانچ سال ہاسٹل میں گزارے ہیں اور اپنی کلاس میں شاید واحد شیعہ تھا۔ شاید اس لئے کہا کہ ہمارے ساتھ ایک اور لڑکا بھی ہوتا تھا اور ہم سب اچھے دوست تھے، وہ بظاہر سنی تھا۔
وقت گزرتا گیا، ایک دن میں سیٹلائٹ ٹاؤن کی مسجد میں جمعہ نماز پڑھنے گیا، صف کھڑی ہو چکی تھی۔ میں بھی جماعت میں شامل ہو گیا، جب نماز ختم ہوئی تو مجھے اپنی صف سے میرے نام کی آواز آئی۔ میں نے اس طرف توجہ کی تو حیران رہ گیا کہ میرے سکول کا دوست اسی صف میں بیٹھا ہوا تھا۔ مسجد سے نکل کر سلام دعا ہوئی، وہ فوج میں لیفٹیننٹ بھرتی ہو چکا تھا۔ میں نے پوچھا کہ تم کب شیعہ ہوئے؟ اس نے کہا کہ میں تو پیدائشی شیعہ ہوں، میں نے کہا کہ تم تو ہمیشہ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے تھے اور کبھی تم نے مجھے بتایا ہی نہیں۔ اس نے کہا یار ابو نے منع کیا ہوا تھا کہ کسی کو مت بتانا۔ یہ خوف ہمارے طبقہ میں ہمیشہ سے موجود ہے کہ اگر زندہ رہنا ہے تو خود کو ظاہر مت کرو۔

ہاسٹل میں ہی ہمارا ایک دوست تھا جو حویلیاں ہزارہ ڈویژن سے تھا، بہت اچھا دوست تھا۔ ایک دن میں کمرے میں داخل ہوا تو وہ تین چار دوستوں سے کوئی بات کر رہا تھا جبکہ اس کی پیٹھ میری طرف تھی۔ میرے کانوں میں آواز پڑی وہ کہہ رہا تھا کہ یار شیعوں سے عجیب سی بدبو آتی ہے اور پھر اپنے چچا کا واقعہ سنانے لگ گیا کہ اس کا ایک شیعہ دوست تھا، جس سے عجیب بدبو آتی تھی۔ میں اس کے قریب گیا اور کہا کہ مجھے سونگھ۔
اس نے جیسے ہی مجھے دیکھا تو گھبرا گیا اور کہا یار ساجد تیری بات نہیں کر رہا۔ میں نے کہا میں تیرے ساتھ چار سال سے ایک ہی کمرے میں رہ رہا ہوں، مجھے بتاؤ کہ تمھیں مجھ سے کب ایسی بدبو آئی خیر وہ بعد میں معافی مانگتا رہا لیکن میرا دل اس سے پھر کبھی صاف نا ہو سکا۔ اب یہ ایک پروپیگنڈہ تھا جو نئی نسل کے دماغ میں ڈال دیا گیا حالانکہ وہ میرے ساتھ مسلسل پانچ سال رہا، ایک ہی کمرے میں مگر اسے مجھ سے کبھی وہ بدبو نہیں آئی لیکن اس کے باوجود اس کا یقین تھا کہ شیعہ سے بدبو آتی ہے۔

میرا سب سے اچھا دوست گوشی تھا، اس کے گھر والے مجھ سے اتنے مانوس تھے کہ جب وہ نیوزی لینڈ چلا گیا تو میرا آنا جانا کم ہو گیا، کافی دن بعد گھر گیا تو اس کی امی جو لاہورن تھیں، پہنچ گئیں اور اپنے مخصوص پنجابی زبان میں مجھے ڈانٹنا شروع کر دیا کہ گوشی گیا تو تو نے آنا ہی چھوڑ دیا۔ جب بھی میں کھانے کے وقت میں ان کے گھر جاتا تو اس کی امی مجھے زبردستی ڈائننگ ٹیبل پر لے کر جاتیں کہ ساجد توں میرا پانچواں پتر ہے۔
گوشی کے بھائیوں کی شادی ہو گئی اور بہوئیں آ گئیں تو میں کسی بہانے سے کھانا گوشی کے کمرے میں منگوا لیتا تھا۔
ایک دن اس کی امی آ گئیں اوئے ساجد تینوں کی مسئلہ ہے تو ہمارے ساتھ کھانا کیوں نہیں کھاتا۔ میں نے کہا آنٹی اب بھابیاں آ گئی ہیں تو مجھے شرم آتی ہے۔
انہوں نے کہا چل آگے اور مجھے ڈائننگ ٹیبل پر بٹھا کر کہا پتر جب تک میں زندہ ہوں تو یہیں کھانا کھائے گا،جب میں مر گئی تو پھر بیشک یہ لوگ تجھے گھر آنے کی بھی اجازت نا دیں تو ان کی مرضی۔
عقیدے کے لحاظ سے دیوبندی تھے مگر کبھی انہوں نے فرق نہیں سمجھا۔ گوشی کا چھوٹا بھائی اور اس کے دوست ایک دن میرے پاس آئے اور پوچھا ساجد بھائی یہ متعہ کیا ہوتا ہے،میں نے وضاحت کی اور پھر سوال کیا شام غریباں کیا ہوتی ہے۔ میں سمجھ گیا کہ یہ دراصل کیا پوچھنا چاہ رہے ہیں،میں نے ان کو شام غریباں کی تاریخ بتائی لیکن وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسی کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ گوشی کمرے میں داخل ہوا اور اس نے دونوں کو ڈانٹ کر بھگا دیا اور مجھ سے معذرت کی۔ وہ لڑکا میرے سامنے ہی جوان ہوا تھا، میرے گھر کے ماحول کو اچھی طرح جانتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ میرا کردار کیا ہے یا میں اس کے گھر کی خواتین کو کس قدر احترام دیتا ہوں لیکن اس کے باوجود اسے مجھ سے زیادہ پروپیگنڈہ پر یقین تھا۔

ہم راولپنڈی میں جس محلہ میں رہتے تھے وہاں شاید دو یا تین شیعہ گھر تھے۔ ہم نے مجلس شروع کروائی،اہلسنت کی بڑی تعداد شریک ہوئی خصوصاً خواتین کی۔ اگلے سال جب مجلس کروائی تو ہمارے جاننے والی خواتین کے ساتھ چند اور خواتین بھی آئیں۔ مجلس میں بیٹھیں، نیاز کھائی اور منتیں بھی مانیں۔ وہ ہمارے گھر کے پچھلے گھر میں رہتی تھیں لیکن ہماری کبھی دعا سلام نہیں ہوئی تھی۔ جو خواتین لے کر آئیں انہوں نے تعارف کروایا کہ یہ پچھلی گلی میں رہتی ہیں اور پہلی بار کسی مجلس میں شریک ہوئی ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے خود بتانا شروع کیا کہ جب آپ نے پہلی بار مجلس کروائی تھی تو ہمیں بہت خوف ہوا تھا اور ہم نے سب ساری رات جاگ کر گزاری۔ ان سے پوچھا کہ ایسا کیوں تو وہ بولیں کہ ہمیں یہ علم تھا کہ شیعہ جب جلوس نکالتے ہیں تو وہ سنیوں پر حملہ کر دیتے ہیں اور ان کو قتل کرنے کے بعد پکا کر کھا جاتے ہیں۔ میری والدہ اور بہنیں یہ سن کر ہنسنے لگ گئیں کہ آپ مذاق کر رہی ہیں لیکن وہ انتہائی سنجیدگی تھیں اور انہوں نے کہا ان دنوں ہمارے والدین کراچی گئے ہوئے تھے اور جب ہمیں علم ہوا کہ پچھلی گلی میں مجلس ہو رہی ہے تو گھر میں ہم صرف بہنیں تھیں، ہم بہت گھبرا گئیں اور اپنے بھائیوں کو فون کیا اور وہ ملازمت سے چھٹی لے کر پہنچ گئے اور ہم نے ساری رات جاگ کر گزاری، جب آپ لوگوں کے نعرے کی آواز آتی تو ہمیں لگتا کہ اب کسی سنی گھر پر حملہ ہو گیا ہے۔
وہ یہ باتیں بتا رہی تھیں اور سب خواتین حیرت سے سن رہی تھیں کہ اس جدید دور میں بھی لوگ اس طرح کی باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ صبح ہم نے پڑوسی خاتون سے پوچھا کہ تم لوگ محفوظ ہو تو اس نے کہا کیوں کیا ہوا تو ہم نے کہا کہ رات شیعوں کا جلوس جو نکلا تھا تو وہ سنیوں کو مار دیتے ہیں، اس لئے پوچھا پھر اس پڑوسی خاتون نے بتایا کہ میں تو خود کل مجلس میں گئی تھی اور تب ہمیں علم ہوا کہ یہ سب جھوٹ ہے لہذا ہم نے اسے کہا کہ اچھا اگلی بار جب جلوس نکلے تو ہمیں بھی ساتھ لے کر جانا تاکہ ہم دیکھیں کہ شیعہ کیا کرتے ہیں اور آج ہم نے بھی مجلس میں شرکت کر لی اور آخر میں کہا کہ آپ لوگ بھی ہم جیسے ہی ہیں۔ یہ واقعہ اگر مجھے کوئی دوسرا سناتا تو میں کبھی بھی یقین نا کرتا کہ اس طرح کے لوگ آج بھی موجود ہیں مگر یہ ہمارے اپنے ساتھ ہوا ہے تو ایسے لوگوں کے وجود پر یقین ہے۔

ایک دفعہ مجلس کے انتظامات کر رہے تھے کہ دو تین چھوٹے بچے سائیکلوں پر وہاں آئے اور مجھ سے پوچھا انکل یہ کیا ہو رہا ہے،میں نے بتایا کہ پروگرام کر رہے ہیں۔
کس کا پروگرام کر رہے ہیں مسلمانوں کا یا شیعہ کافروں کا؟ میں ہنسنے لگ گیا اور کہا بیٹا مسلمانوں کا پروگرام ہے۔ انہوں نے سائیکل موڑتے ہوئے کہا شیعوں کا تو نہیں ہے نا؟ مجالس شروع کروانے کے بعد ہمارے گھر کی دیوار پر مسلسل ایک جملہ لکھا نظر آتا تھا “یہ دَلوں کا گھر ہے” آغاز میں ہم نے مٹانے کی کوشش کی مگر کچھ دن بعد دوبارہ وہی تحریر لکھی نظر آتی تھی تو ہم نے اسے سنجیدہ ہی لینا چھوڑ دیا البتہ مہمان آنے پر خفگی ضرور ہوتی تھی کہ وہ کیا سوچتے ہوں گے۔ یہ سب معمولی باتیں ہیں اور ہر شیعہ کی اس طرح کی ملتی جلتی کہانی ہو گی۔

آج سوشل میڈیا پر، شیعہ مخالف جلوسوں میں ہمیں متعہ کی اولاد کا طعنہ دیا جاتا ہے حالانکہ اہل تشیع اس بات کو تو مانتے ہیں کہ متعہ اسلام میں قرآنی آیات کے مطابق جائز ہے مگر عملی طور پر رائج نہیں ہے بالکل اسی طرح جس طرح اسلام میں غلام اور لونڈیاں آج بھی جائز ہیں مگر عملی طور پر وہ قانون رائج نہیں ہے۔
ہمارا آخر متعہ پر اختلاف ہی کیا ہے؟ متعہ کے قوانین آج بھی وہی ہیں جو نبی کریم کی زندگی میں تھے، تب اصحاب کرام نے متعہ کیا، جو کہ صحاح ستہ کی احادیث اور تاریخ کی کتب سے ثابت ہے، ہمارا اختلاف تو اس کے حرام ہونے پر ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ وہ آخری عرصہ میں حرام ہو گیا تھا جبکہ ہم مانتے ہیں کہ قرآن کے حکم کو صرف ناسخ آیت ہی منسوخ کر سکتا ہے ورنہ جو اصول متعہ کے آج ہیں وہی نبی کریم کے زمانے میں ہی تھے پھر ہم پر اعتراض کیسا؟ جانتے آپ کے علماء بھی ہیں مگر کچھ پروپیگنڈہ کر کے بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ اس پروپیگنڈہ کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور یہی مسئلہ کی اصل جڑ ہے کہ جو حقائق جانتے ہیں مگر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں البتہ کچھ علماء کرام حقائق بیان کرتے ہیں تو اس پر رافضی کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے۔

کیا آپ مان سکتے ہیں کہ ایک عالم دین ساری زندگی پاکستان میں رہا ہو اور اسے یہ بھی معلوم نا ہو کہ اہل تشیع کی مساجد بھی ہوتی ہیں جہاں باقاعدہ آذان بھی ہوتی ہے اور باجماعت نماز بھی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ شیعوں کی مساجد نہیں ہوتیں بلکہ امام باڑے ہوتے ہیں۔ ہم دوسروں کو حقائق کیا بیان کرتے، ہماری زندگی تو خود پر لگے الزامات کے جواب دیتے ہی گزر جاتی ہے۔ آپ ہمیں مسلمان کرنے اور کلمہ پڑھانے سے پہلے ہمارے عقائد کا تو صحیح سے مطالعہ کر لیں کہ شیعہ عقائد حقیقت میں کیا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کہیں بحث ہوتی ہے تو آپ کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ شیعوں سے کیسے بحث کریں کیونکہ آپ کے علم کی بنیاد تو پروپیگنڈہ پر قائم ہوتی ہے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں