افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر…! (میر افضل خان طوری)

انسانی معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے۔ معاشرے کا ہر ایک فرد اپنی جگہ پر زمہ دار ہوتا ہے۔ فرد کی یہ زمہ داری اس کی ذاتی اور اجتماعی نوعیت کی ہوتی ہے اور پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ایک فرد اگر چاہیں تو پورے معاشرتی نظام کو بدل سکتا ہے اور اگر چاہے تو پورے معاشرتی نظام کو برباد بھی کرسکتا ہے۔

جس معاشرے میں روزانہ بچوں، بچیوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی روز کا معمول ہو۔ جس معاشرے کا معلم خود بچوں کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہوتا ہو اس معاشرے کے دوسرے افراد سے اچھائی کو توقع رکھنا بےکار ہے۔

ہمارے سکول ،کالج ، مدرسے اور یونیورسٹی کے استاد کا کردار جب تک مثالی نہیں ہوگا اس وقت تک ہم ایک باکردار اور بااخلاق قوم پیدا نہیں کرسکتے۔

ہم میں سے ہر شخص اتنا تو جانتا ہے کہ ہمارے لئے رحمت للعالمین خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی نمونہ عمل ہے لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کسی کا بچہ ، بچی اور عورت محفوظ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم خود دوسروں کے کفر کے تلاش میں نکلے ہیں مگر خود اپنے کفر کو بھول گئے ہیں۔ہم دوسروں کی اصلاح تو چاہتے ہیں ہم دوسروں کو اچھا مسلمان دیکھنا چاہتے ہیں مگر خود اپنی اصلاح کرنے سے غافل ہیں۔

ہمارے اندر کا شیطان ہم پر اتنا قوی اور طاقتور ہوچکا ہے کہ ہم نے غلط کام کرنے کیلئے مسجد اور مدرسے کا لحاظ تک کرنا چوڑ دیا ہے۔ جو معلم قرآن مجید گود میں رکھ کر مسجد میں بچوں کے ساتھ نازیبا حرکات کرتا ہو اس شخص سے کسی قسم کی خیر کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔

کیا اسلام ہمیں اس قسم کی غیراخلاقیوں کی اجازت دیتا ہے؟ گزشتہ دنوں گجر پورہ میں رات کے وقت موٹروے پر جس خاتون کی عزت بچوں کے سامنے لوٹ لی گئی کیا کسی مسلک کے مذہبی تنظیم نے اس پر کوئی ریلی نکالی؟ نہیں۔ اور آج تک مسلسل اس قسم کے واقعات رونما ہو رہے ہیں لیکن ہر مسلک کے مولوی کو صرف اپنی اپنی ذاتی مفاد کی پڑی ہے۔

اگر یہ سب مل کر اسلامی اقدار کے نفاذ کیلیے جدوجہد کرتے اور پورے ملک میں امن محبت ، رواداری اور خوت کا پیغام اپنے اپنے منبروں سے دیتے تو آج یہ ملک امن کا گہوارہ ہوتا۔ اور اس ملک کے نوجوان نسل کو جدید اسلامی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کیا جاتا۔ اس ملک میں بچوں، بچیوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے عناصر کیخلاف گھیرا تنگ ہوتا اور کوئی بھی شخص ایسے گھناؤنے فعل کو انجام سے پہلے سو دفعہ سوچتا۔

ہماری پولیس تو صرف اس بات کے انتظار میں ہوتی ہے کہ کسی طرح کوئی واقعہ رونما ہو تو تب وہ وہاں پر جائیں۔ یعنی واقعہ رونما ہونے سے پہلے اقدامات کرنا شاید ان کی زمہ داریوں میں شامل ہی نہیں۔

بحیثیت قوم ہم خود ہی پولیس سمیت اپنے اداروں کو خراب کرنے کے زمہ دار ہیں۔ جب تک ہم خود ٹھیک نہیں ہونگے ہمارا کوئی ادارہ ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ ہم میں سے ہر فرد زمہ دار ہے اور ہمیں زمہ داری قبول کرنا ہوگی۔

جب تک بحیثیت فرد ہم احساس زمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرینگے، جب تک بحیثیت ایک فرد ہم اس معاشرے کی تباہی و بربادی کی پوری زمہ داری قبول نہیں کرینگے، جب تک بحیثیت ایک فرد ہم اپنی اصلاح نہیں کرینگے، تب تک ہمارے معاشرے کا درست ہونا محال ہے۔ اور اسی طرح ہمارے گلیوں اور محلوں میں اسلام کا خون ہوتا رہے گا۔

بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں