داعش نے پاکستان کیلئے امیر مقرر کرلیا

اسلام آباد (ش ح ط) عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے ولایت خراسان پاکستان کے لئے اپنا پہلا امیر داؤد محسود کو مقرر کرلیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے کچھ ماہ قبل (خود ساختہ) ولایت حراسان پاکستان صوبے کا اعلان کیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ داعش نے صوبہ ولایت حراسان پاکستان کے لئے داؤد محسود کو اپنا پہلا امیر مقرر کردیا ہے۔ داؤد محسود کا تعلق قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے سراروغہ سے ہے۔

ذرائع کے مطابق داؤد محسود والد عظیم محسود کراچی میں سابق پولیس ملازم تھا۔ ‏داؤد محسود حسن اسکوائر پر واقع پولیس ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ایسٹ سمیت مختلف علاقوں میں تعینات رہ چکا ہے۔

ذرائع نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ داؤد محسود لانڈھی میں واقع سرکاری عمارت کی حفاظت پر بھی مامور رہ چکا ہے۔ داؤد محسود افغانستان میں امریکی فورسز کے ہاتھوں گرفتار لطیف اللہ محسود کا کزن ہے۔

پولیس نے داؤد محسود کو دہشت گردی کے الزام میں ملازمت سے برخاست کیا اور پھر یہ کراچی اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہا۔ پولیس ملازمت چھوڑنے کے بعد انہوں نے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے ٹی ٹی پی امیر ملا فیض اللہ کے قریبی تعلقات کی وجہ سے کالعدم تنظیم کراچی کا امیر بنا۔

سن 2014 میں پاکستان سے فرار ہوا اور افغانستان کے صوبے ننگرہار میں تحریک طالبان پاکستان کو چھوڑ کر داعش میں شمولیت اختیار کی۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ اگست 2018 میں بلوچستان کے ضلع مستونگ خودکش دھماکے کا ماسٹر مائنڈ بھی داؤد محسود تھا۔

ذرائع کے مطابق گرفتار دہشت گردوں نے انکشاف کیا ہے کہ مستونگ دھماکے کا ماسٹرمائنڈ داؤد محسود پولیس کی سکیورٹی زون ٹو کی نوکری سے برخاست کیا گیا تھا۔

دہشتگرد داؤد محسود افغانستان سے نیٹ ورک چلا رہا ہے جبکہ سندھ اور بلوچستان میں داعش کو منظم کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔

دس مارچ 2018 کو افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے ضلع نازیان میں داعش کے ٹھکانے پر امریکی ڈرون حملہ کیا گیا جس میں داؤد محسود کے بیٹے سمیت چھ دہشت گرد مارے گئے۔

واضح رہے کہ افغانستان میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش میں موجود 70 فیصد جنگجوؤں (دہشت گردوں) کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے ہے جو ملک میں فوجی کارروائیوں (آپریشنز) کی بناء پر داعش کا حصہ بن گئے۔

ذرائع کا مطابق افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ، خراسان صوبہ میں زیادہ تر ارکان کی اکثریت تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی ہے، یہ دہشت گرد پاکستان میں فوجی آپریشن ضرب عضب کے دوران ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔

صوبہ ننگرہار میں داعش کے کئی جنگجوؤں کا تعلق اورکزئی ایجنسی سے ہے، جنہوں نے گزشتہ کئی سالوں سے داعش میں شمولیت اختیار کی۔ ان جنگجوؤں میں سے 70 فیصد ٹی ٹی پی کے سابق اراکین بھی تھے جبکہ متعدد اورکزئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے پختون ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ عسکریت پسند عراق اور شام میں اپنے ٹھکانوں سے اپنے انتہا پسند نظریے کو افغانستان اور دیگر ممالک میں منتقل کررہے ہیں

مبصرین پاکستان کے جماعت الحرار، شہریار محسود، قاری ادریس گروپ، طمانچی ملا، مولوی فقیر اور طارق گروپ کے سینکڑوں شدت پسند دولتِ اسلامیہ سے منسلک ہوچکے یا رہ چکے ہیں۔

دولتِ اسلامیہ کے پاکستانی جنگجووں کے بارے میں جب قبائلی علاقوں میں شدت پسندی پر گہری نظر رکھنے والے صحافی نے بھی اس سے متفق ہیں اور کہتے ہیں کہ جب سے اسلامک سٹیٹ اف خراسان بنی تو اس کے پہلے ہی امیر کا تعلق اورکزئی ایجنسی سے ہے۔ نہ صرف قبائلی علاقوں سے بلکہ بلوچستان میں شیعہ مخالف مسلح گروہوں جیسے لشکر جھنگوی اور جنداللہ کے بھی اکثر جنگجو دولتِ اسلامیہ کے ساتھ مل گئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں