ڈیرہ اسماعیل خان (توقیر حسین زیدی) سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے نہ تو وزارتِ عظمیٰ کی مدت پوری کی اور نہ ہی عدالت سے سزا پانے کے باوجود کبھی مقررہ مدت تک قید پوری نہیں کی۔
تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے عدالت سے سزا پانے کے باوجود کبھی مقررہ مدت تک قید پوری نہیں کی۔ بالکل اسی طرح جیسے تین مرتبہ وزیراعظم بننے کے باوجود انہوں نے کبھی اپنی ٹرم پوری نہیں کی۔ پانامہ سکینڈل کے بعد العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد گذشتہ 16 مہینوں کے دوران نواز شریف نے مجموعی طور پر صرف 307 دن ہی جیل میں گزارے۔
اس سے قبل 1999 میں بھی وہ 425 دن کی نامکمل سزا کاٹنے کے بعد جنرل پرویز مشرف سے ڈیل کرکے سعودی عرب چلے گئے تھے۔
تاریخی طور پر جیل حراست نواز شریف کےلیے پہلا موقع نہیں۔ وہ اب سے بیس برس قبل اکتوبر 1999 کو بھی ملک میں فوجی حکومت کے قیام کے بعد مستقل 425 دن جیل میں اسیر رہے تھے۔ نواز شریف 9 دسمبر 2000 کو جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ سعودی عرب جلاوطن ہوگئے تھے۔
خیال رہے کہ نواز شریف نے دونوں مرتبہ شدید علالت کی بنیاد پر عدالت سے ریلیف حاصل کیا۔
دورانِ حراست شدید علالت کی بنیاد پر سزا معطلی اور ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نام خارج ہونے کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف علاج کے لیے بیرون ملک روانہ ہوجائیں گے۔
29 اکتوبر 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا کو شدید علالت کے باعث آٹھ ہفتوں کے لیے معطل کرتے ہوئے بیس بیس لاکھ کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے پر اُنہیں طبی بنیادوں پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
خیال رہے کہ میاں نواز شریف کو 24 دسمبر 2018 کو احتساب عدالت فیصلے کے سبب العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید پونے چار ارب روپے جرمانہ جائیدادیں ضبط، نااہل قرار دیتے ہوئے گرفتار کرکے پہلےاڈیالہ پھر ایک دن وقفے کے بعد انہیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کردیا گیا تھا۔
تاہم اگلے ماہ دسمبر میں اپنی 70 ویں سالگرہ منانے والے سابق وزیراعظم کے متعلق جنوری سے ہی مسلسل علالت کے خبریں آنے کے بعد 2 فروری 2019 کو میڈیکل بورڈ کی سفارش پرکوٹ لکھپت جیل سے سروسز اسپتال سمز منتقل کردیا۔ جس کے بعد 25 فروری تک جیل اور اسپتال ان کا آنا جانا لگا رہا۔
رواں برس 26 مارچ کوصحت کی خراب صورتحال کے سبب طبی بنیادوں پر سپریم کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 6 ہفتوں کےلیے پچاس پچاس لاکھ کے دو مچلکے پر ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے ان پربیرون ملک جانے پر پابندی لگادی تھی۔
سات مئی 2019 کو وہ ایک بار پھر کوٹ لکھپت جیل منتقل ہوگئے۔ تاہم طبیعت کی خرابی کے حوالے سے تشویشناک خبریں مسلسل سامنے آتی رہیں۔ اس دوران 21 اکتوبر 2019 کو نیب نےانہیں پھر فوری طورپر سروسز اسپتال منتقل کردیا۔ تاہم طبعیت کی تشویشناک خبروں کے مسلسل آنے کے بعد 29اکتوبر 2019 کو العزیزیہ ریفرنس میں طبی بنیادوں پر میاں نواز شریف کی سزا آٹھ ہفتوں کے لیے معطل کردی گئی ہے۔
24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس کےتفصیلی فیصلے کی روشنی میں سات سال قید اور اڑھائی کروڑ ڈالر جرمانے کی سزا پانے کے بعد سے نواز شریف اس دوران قریباً 239 دن سےجیل میں مقید تھے۔ اس سے قبل عام انتخابات سے قبل گزشتہ برس 6 جولائی کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم کو ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر سمیت قید و جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ جس کے نتیجے میں میاں نواز شریف اور مریم نواز 69 روزاور کیپٹن صفدر 74 دن اڈیالہ جیل میں رہے تھے۔
19ستمبر 2018 کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے تینوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اگر جائزہ لیا جائے تو گزشتہ 16 ماہ میں تین ماہ کے وقفے کے بعد میاں نواز شریف مجموعی طور پر 307 دن جیل میں رہے۔۔