ناروے کی 80 تنظیموں کا غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کا مطالبہ

اوسلو (ڈیلی اردو) یورپی ملک ناروے کی 80 انسانی حقوق تنظیموں نے فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کو انسانیت کے خلاف جرم اور شہری آبادی کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف قرار دینے ہوئے ان پابندیوں کو فوری ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق ناروے کی ان 80 تنظیموں نے ناروے کے وزیر خارجہ کو ایک مکتوب ارسال کیا ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ اسرائیل پر غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کے لیے دبائو ڈالیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وقت پوری دنیا کرونا کی وبا کی وجہ سے حفاظتی انتظامات کررہی ہے مگر غزہ کی پٹی کےعوام اسرائیل کی سخت ترین معاشی اور اقتصادی پابندیوں کا شکار ہیں۔ اسرائیلی پابندیوں کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں عوام کو بدترین انسانی ، اقتصادی اور سماجی مشکلات کا سامنا ہے۔ اسرائیلی ریاست کے انتقامی حربوں سے نہ صرف غزہ بلکہ غرب اردن اور القدس کے فلسطینیوں کی زندگی بھی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے۔

بیان میں اوسلو کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اقوام متحدہ کے رابطہ مرکز برائے انسانی حقوق ‘اوچا’ کی اس رپورٹ کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کرونا کے عرصے کے دوران فلسطینیوں کے خلاف یہودی آباد کاروں کے پرتشدد حملوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔

انسانی حقوق کے گرپوں کا کہنا ہے کہ غزہ کی مسلسل ناکہ بندی اور فلسطینیوں پر معاشی حالات تنگ کرنا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ناروے کی حکومت اور دوسرے یورپی ممالک کو ملک کر اسرائیل پر غزہ کا محاصرہ ختم کرنے اور غزہ کے عوام کو معاشی حقوق فراہم کرنے کے لیے دبائو ڈالا جائے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی طرف سے سنہ 2009ء، 2012ء اور 2014ء میں مسلط کی گئی جنگوں کے نتیجے میں غزہ کے عوام کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے غزہ کے معاشی محاصرے اور مسلسل پابندیوں نے غزہ کےعوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے جس کے نتیجے میں دو ملین افراد متاثر ہوئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں