داعش مشرق وسطیٰ میں دوبارہ سر اٹھا رہی ہے

واشنگٹن (ڈیلی اردو/وائس آف امریکا) ایسے میں جب کرونا وائرس کی وبا کی تباہ کاریاں جاری ہیں، ایسی اطلاعات ملتی رہی ہیں کہ دولت اسلامیہ (داعش) کی تنظیم نے مشرق وسطیٰ کے بعض علاقوں میں جہاں وہ پہلے سرگرم تھی، اب پھر سے سر اٹھانا شروع کیا ہے، جس کے ردعمل میں ان کے خلاف جوابی کارروائی کی جا رہی ہے۔

شام سے ملنے والی خبروں کے مطابق، خصوصی آپریشن کے لئے امریکہ کی قیادت میں اتحادی فورسز نے داعش کے ایک ٹھکانے پر ضرب لگائی ہے جس کے دوران انھوں نے درمیانے درجے کے ایک کمانڈر کو پکڑ لیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ کمانڈر دیر الزور کے دیہی علاقے میں بڑھتے ہوئے دہشت گرد حملوں میں ملوث تھا۔

اتحادی افواج کی جانب سے یہ کارروائی گزشتہ بدھ کے دن کی گئی ہے جنھوں نے اپنے مشن کو کامیاب قرار دیا۔ تاہم، چند ایک تفصلات ہی بتائی گئی ہیں، اس حملے میں امریکہ کی پشت پناہی رکھنے والی شامی ڈیموکریٹک فورسز یعنی ایس ڈی ایف نے بھی حصہ لیا۔

قومی سلامتی سے متعلق وائس آف امریکہ کے نامہ نگار جیف سیلڈن نے اپنی رپورٹ میں یاد دلایا ہے کہ دیر الزور کے علاقے میں گزشتہ ہفتے کیا جانے والا یہ کم سے کم دوسرا آپریشن تھا۔

یہ آپریشن ایسے وقت میں کئے گئے ہیں جب ایس ڈی ایف کے کمانڈر اس بارے میں برابر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ گزشتہ مہینے سے داعش کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اتحادی فورسز کے عہدیداران جبکہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ تشویش کی وجہ گرچہ اپنی جگہ موجود ہے۔ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ داعش کی کارروائیوں میں اضافے سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ دہشت گرد گروپ شام یا عراق میں پہلے کی طرح اپنی طاقت دوبارہ حاصل کرنے کے قریب ہے۔

اتحادی افواج اس جانب بھی توجہ دلاتی ہیں کہ داعش کی کارروائیوں کا موثر جواب دیا جا رہا ہے۔ اتحادی ترجمان کرنل مائلز کیجنس نے کہا کہ داعش کے خلاف نہایت مستعدی سے کاروائی کی گئی ہے۔ ان کا اشارہ حالیہ ہفتوں میں عراقی سیکورٹی فورسز کی جانب سے متعدد آپریشن کی جانب تھا جن میں اکثر اتحادی افواج کی فضائی قوت سے مدد لی گئی۔

دوسری جانب اہم عہدیداروں نے اس بیانیے کو مسترد کردیا ہے کہ کرونا وائرس کی عالمی وبا کے پردے میں داعش نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے، اس سے قطع نظر شام کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے جیمز جیفری اور دوسرے عہدیدار بہرحال داعش کی سرگرمی پر تشویش رکھتے ہیں۔

انٹلی جنس کے اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام اور عراق میں داعش کی کمان میں اب بھی چودہ ہزار جنگجو موجود ہیں۔ انٹلی جنس کے عہدیدار اس جانب بھی توجہ دلاتے ہیں کہ اکتوبر دو ہزار انیس میں امریکی آپریشن کے دوران داعش کے سابق لیڈر ابو بکر بغدادی کی ہلاکت کے بعد سے تنظیم کی سرگرمیوں میں بہت کم خلل پڑا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ داعش کے نئے لیڈر ابو ابراہیم الہاشمی القریشی نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ عراق اور شام دونوں ملکوں میں داعش دھیرے دھیرے سے ہی لیکن مستقل مزاجی سے قدم جماتی رہے۔ زیادہ پریشان کن ایسے اشارے ہیں کہ داعش نے کامیابی سے ایسے علاقوں میں سر اٹھایا ہے جو اتحادیوں کی پہنچ سے باہر بتائے جاتے ہیں۔

شام کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے سفیر جیمز جیفری کے الفاظ میں ہمارے لئے یہ بڑی تشویش کی بات ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں