جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، پولیس کارروائی کرے، اہلیہ

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) سپریم کورٹ پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے اسلام آباد کے تھانہ سیکرٹریٹ میں درخواست دی ہے کہ ان کے شوہر کو قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

انھوں نے شک ظاہر کیا ہے کہ صحافی احمد نورانی پر حملہ کرنے والے ہی ان کے شوہر کو ختم کرنے کی خواہش رکھنے والے ہیں۔

اس درخواست کی وائس آف امریکہ کو موصول نقل کے مطابق سرینا عیسیٰ نے کہا کہ ان کے پاس ایک ویڈیو ہے جو پولیس کو فراہم کررہی ہیں۔ اس میں ایک شخص کہتا ہے کہ جو شخص بھی بدعنوانی میں ملوث ہے، چاہے وہ فائز عیسیٰ ہو، اسے فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کردیا جائے۔

درخواست کے مطابق، ویڈیو میں موجود شخص کا نام آغا افتخار الدین مرزا ہے۔ سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ انھیں اس شخص کا نام انٹرنیٹ سے معلوم ہوا ہے اور وہ تصدیق نہیں کرسکتیں کہ یہ اس کا اصلی نام ہے۔

سرینا عیسیٰ نے کہا ہے کہ بہت سے طاقت ور لوگ میرے شوہر سے ناخوش ہیں۔ ہم جن حالات کا سامنا کررہے ہیں، ان میں اس ویڈیو کو قتل کی دھمکی سمجھتی ہوں۔ میرے شوہر کے خلاف کسی عبدالوحید ڈوگر نے درخواست جمع کروائی تھی۔ میرے شوہر نے سوال کیا کہ عبدالوحید ڈوگر کون ہے لیکن اس سوال کا جواب حکومت نے اب تک نہیں دیا۔ وزیرِ اعظم سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے مرزا شہزاد اکبر نے عبدالوحید ڈوگر سے ملاقات کی تھی۔ اس لیے ان سے پوچھا جائے کہ وہ شخص کون ہے جسے طاقت ور لوگ استعمال کررہے ہیں۔ اس بارے میں ڈی جی آئی ایس آئی سے بھی رابطہ کیا جائے جو یقیناً اس کے بارے میں جانتے ہوں گے۔

سرینا عیسیٰ نے شک ظاہر کیا کہ جن لوگوں نے صحافی احمد نورانی پر حملہ کرکے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا، وہی ان کے شوہر کو ختم کرنے کی خواہش رکھنے والے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافی عبدالوحید ڈوگر نے احمد نورانی کے بارے میں جھوٹ بولا تھا اور اس شخص کی وجہ سے پولیس نے آج تک اصل ذمے داروں کو نہیں پکڑا۔

سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے والد علیل ہیں اور وہ ایک عرصے کے بعد آج گھر سے باہر نکلی ہیں۔ وہ اپنے شوہر کو کھونا نہیں چاہتیں۔ سپریم کورٹ کے جج کو قتل کی دھمکی دینا سنگین نوعیت کی دہشت گردی ہے۔ پولیس کا فرض ہے کہ وہ اس میں ملوث لوگوں کو ڈھونڈیں اور گرفتار کریں۔ انہوں نے پولیس سے درخواست کی کہ فوری طور پر مقدمہ درج کرکے اس کی نقل فراہم کی جائے۔

پولیس کا موقف

وائس آف امریکہ نے اس درخواست پر پولیس کا موقف جاننے کے لیے ایس پی سٹی عمر خان، ایس ایچ او اور دوسرے افسروں سے رابطہ کیا۔ لیکن کسی افسر نے فون نہیں اٹھایا۔ اس بارے میں بھیجے گئے پیغامات کا بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر درخواست کی تصدیق کی اور کہا کہ اس بارے میں اعلیٰ سطح پر مشاورت جاری ہے جس کے بعد ایف آئی آر درج کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

جج کو دھمکیاں دینے والا کون؟

سرینا عیسیٰ کی درخواست میں جس ویڈیو کا ذکر کیا گیا ہے وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہے۔ اس ویڈیو میں موجود شخص آغا افتخار الدین مرزا راولپنڈی کا رہائشی اور ایک مدرسے کا منتظم ہے۔

اس نے ویڈیو میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کا نام بھی لیا اور انہیں غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا۔ اس نے کہا کہ چین کا طریقہ کار اختیار کیا جانا چاہیے کہ جو شخص مالی بدعنوانی میں پکڑا جائے، چاہے قاضی فائز عیسیٰ ہو، نواز شریف یا زرداری، اسے فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کردیا جائے۔

ویڈیو میں صحافی حامد میر اور محمد مالک کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ میڈیا میں ایسے لوگ ہیں جنہیں بات کرنے کی تمیز نہیں۔ مولانا طارق جمیل کو ان سے معافی نہیں مانگنی چاہیے تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں