پنجاب: جبراً مذہب تبدیلی کے کیسز سب سے زیادہ

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان میں گزشتہ سات سال کے دوران مبینہ طور پر مذہب کی جبراً تبدیلی کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں ہوئے جب کہ صوبہ سندھ دوسرے نمبر پر رہا۔

یہ تجزیہ پاکستان میں انسانی حقوق، جمہوری ارتقا اور پسماندہ گروہوں کے لیے سماجی انصاف سے متعلق تحقیق اور وکالت سے منسلک ادارے ‘سینٹر فار سوشل جسٹس’ کی جانب سے کیا گیا۔

تجزیے کے مطابق اس سے قبل جمع کیے گئے اعداد و شمار میں سندھ پہلے نمبر پر تھا۔ تاہم اب پنجاب اس فہرست میں سب سے آگے ہے جس پر ماہرین نے حیرت کا اظہار کیا ہے کیوں کہ سندھ میں ہندو برادری کے زیادہ لوگ مقیم ہیں۔

تجزیاتی رپورٹ کے مطابق 2013 سے 2020 تک 162 کیسز سامنے آئے۔ اس تعداد میں سب سے زیادہ 52 فی صد کیسز پنجاب سے رپورٹ ہوئے جب کہ 44 فی صد سندھ، خیبر پختونخوا سے 1.23 فی صد اور اسلام آباد سے بھی 1.2 فی صد کیسز رپورٹ ہوئے۔ بلوچستان میں جبراً مذہب تبدیلی کے 0.62 کیسز سامنے آئے۔

تجزیے کے مطابق مبینہ طور پر جبری تبدیلی مذہب کے سب سے زیادہ واقعات جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولپور میں رپورٹ ہوئے جہاں ان کی تعداد 21 رہی۔

اسی طرح 14 واقعات لاہور، کراچی میں 12، فیصل آباد میں 10، حیدرآباد میں آٹھ، قصور اور گھوٹکی میں چھ، چھ، بدین میں پانچ جب کہ عمرکوٹ اور سیالکوٹ میں چار ،چار کیسز رپورٹ ہوئے۔

ادارہ برائے سماجی انصاف کی رپورٹ کے مندرجات کے مطابق جبری طور پر مذہب کی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں کی تعداد ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے جس کی شرح 54.3 فی صد ہے۔ مسیحی برادری کے متاثرہ افراد کی تعداد 44.44 فی صد، سکھ اور کیلاش برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی کل تعداد 0.62 فی صد رہی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 46.3 فی صد سے زائد متاثرین کو کم عمری میں مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ان میں سے 32.7 فی صد کی عمریں 11 سے 15 سال کے درمیان جب کہ صرف 16.67 فی صد افراد کی عمریں 18 سال سے زائد تھیں۔

تجزیے کے مطابق اکثر واقعات میں نچلی عدالتوں نے کبھی بھی اس بارے میں نادرا یا اسکول کے ریکارڈ سے تصدیق نہیں کی۔ رپورٹ تیار کرنے والے ماہرین کے مطابق حقیقت میں کم عمر متاثرین حجم کے اعتبار سے ان نتائج سے زیادہ ہی ہو سکتے ہیں کیوں کہ 37 فی صد سے زیادہ افراد کی عمر کا رپورٹس میں کوئی ذکر نہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2013 میں ایسے تین کیسز، 2014 میں 13، 2015 میں 20، 2016 میں 31 کیسز رپورٹ ہوئے۔

2017 میں ان کیسز کی تعداد کم ہوکر 23 اور 2018 میں 11 ہو گئی تاہم 2019 میں جبری تبدیلی مذہب کے 49 واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ نومبر 2020 میں ایسے 13 واقعات رپورٹ ہوئے۔

‘غربت سب سے بڑا عنصر ہے’

ادارہ برائے سماجی انصاف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ پنجاب سے بڑی تعداد میں کیسز سامنے آنے کی سب سے بڑی وجہ تبدیلی مذہب کے لیے کی جانے والی حوصلہ افزائی، کمزور معاشی حالات اور جرائم ہیں۔

پیٹر جیکب نے مزید بتایا کہ ایسے ہی عوامل دیگر صوبوں میں بھی موجود ہیں۔ اس قسم کے واقعات میں غربت بہت بڑا عنصر ہے۔ لوگوں کو معاشی فوائد کا جھانسہ دے کر مذہب تبدیل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں دوسرا اہم نکتہ تبدیلی مذہب کے لیے کی جانے والی حوصلہ افزائی ہے جسے اجر سمجھ کر لوگوں کو ایسا کرنے کے لیے راغب کیا جاتا ہے۔

پیٹر جیکب کے مطابق مذہب کی جبری تبدیلی میں تیسرا اہم عنصر منظم جرائم ہیں۔ جنسی اور انسانی غلامی جیسے جرائم کے تحت یہ فعل کیے جاتے ہیں۔

ان کے مطابق ریاست کی جانب سے اس ضمن میں مؤثر اقدامات کی عدم موجودگی غیر ضروری، غیر اخلاقی اور ہیرا پھیری سے ہونے والی شادیاں ہیں جو معاشرتی ہم آہنگی، مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے احترام کے لیے بھی خطرناک نتائج کی حامل ہیں۔

پیٹر جیکب کا کہنا تھا کہ سندھ میں ایسے کیسز زیادہ رپورٹ ہونے کی وجہ سندھ کا فعال میڈیا ہے جو ایسے واقعات فوری طور پر رپورٹ کر دیتا ہے اور پھر قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں بھی اسے کوریج ملتی ہے۔ لیکن اُن کے بقول پنجاب میں عام طور پر ایسا نہیں ہوتا جس کی وجہ سے کیسز کم رپورٹ ہوتے ہیں۔

پیٹر جیکب کے مطابق سندھ میں اس بارے میں پائی جانے والی حساسیت کی وجہ سے زیادہ کیسز سامنے آجاتے ہیں لیکن پنجاب میں ایسا نہیں ہوتا۔ البتہ تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سندھ کے مقابلے میں پنجاب میں جبری طور پر تبدیلیٔ مذہب کے کیسز زیادہ ہیں۔

انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ صوبہ سندھ میں کیسز کی تعداد کم ہونے کی وجہ کسی حد تک 18 سال سے کم عمر کی شادیوں پر پابندی پر مبنی قانون بھی ہے جس کی وجہ سے اس میں قانونی رکاوٹ ضرور پیدا ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی حد تک ہی سہی مگر یقینی طور پر اس ضمن میں صوبہ سندھ میں کام ضرور ہوا ہے۔ صوبے میں جبری تبدیلیٔ مذہب سے متعلق قانون متعارف کرایا تو گیا مگر وہ بہرحال اب تک قانون نہیں بن سکا۔

پیٹر جیکب نے بتایا کہ چند سال قبل مجموعہ تعزیرات پاکستان میں ایک شق 498 بی کا اضافہ کیا گیا تھا جس کے تحت ملک میں خواتین کی جبری تبدیلیٔ مذہب کو جرم قرار دے کر اس کی سزا سات سال تک قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ بھی مقرر کیا گیا۔

لیکن ان کے خیال میں اس قانون سے متعلق ججز اور وکلا کو بھی زیادہ معلومات نہیں ایسے واقعات میں اغوا اور ریپ ہی کے مقدمات درج کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے قانون کی یہ شق عام طور پر استعمال ہی نہیں کی جا رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کو بھی استعمال میں لانا ہوگا۔

انسانی حقوق کے ادارے متعدد بار جبری تبدیلیٔ مذہب کے واقعات پر آوازیں بلند کرتے چلے آئے ہیں۔ اور یہ سوال بھی شدت سے اٹھایا جاتا رہا ہے کہ اس کی زیادہ تر شکار خواتین ہی کیوں ہوتی ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق پنجاب میں ایسے کیسز اس لیے زیادہ اُجاگر نہیں ہوتے کیوں کہ یہ صوبہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ یہاں میڈیا زیادہ تر سیاسی ایونٹس کی کوریج پر زور دیتا ہے۔

ان کے مطابق پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے جہاں بہت کم تعداد میں ایسے لوگ بہرحال موجود ہیں جو شدت پسند ہیں اور وہ پنجاب میں کافی فعال ہیں۔

ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ پنجاب میں مذہب کی بنیاد پر ووٹ کا حصول اور سیاست فعال ہونے کی وجہ سے صورتِ حال سندھ سے مختلف ہے اور یہی وجہ ہے کہ سندھ کی نسبت پنجاب میں کیسز زیادہ سامنے آرہے ہیں۔

ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق جبری تبدیلیٔ مذہب انسانی حقوق کا بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن انسانی حقوق کا تحفظ جمہوری ریاست اور جمہوری ماحول ہی میں ممکن ہے۔

ان کے بقول مذہبی ریاست جمہوری ریاست کے بالکل متضاد چیز ہے۔ کوئی مذہبی ریاست چاہے وہ کسی بھی مذہب کی ہو وہ جمہوری ریاست نہیں رہ سکتی۔ کیوں کہ ان کے بقول اس میں جو مذہب ریاست کا ہوتا ہے اس سے مختلف عقیدہ رکھنے والے دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ جاتے ہیں۔

‘سینٹر فار سوشل جسٹس’ کی مرتب کردہ سفارشات کے مطابق تعزیرات پاکستان میں ترمیم کر کے تمام تبدیلی مذہب کیسز کو سول جج کے علم میں لانے اور اس سے تصدیق شدہ اور توثیق شدہ ہونا چاہیے تاکہ شخصی آزادی، مرضی اس مقصد کے لیے مناسب عمر اور فریقین کی ازدواجی حیثیت کو معلوم کیا جائے۔

اسی طرح سفارشات کے مطابق قومی کمیشن برائے اقلیت کو خود مختار اور آزاد بنایا جائے جب کہ عدلیہ اور عدالتی افسران کو اس بات کا قائل کیا جائے کہ وہ جبری تبدیلیٔ مذہب کی حساسیت کا ادراک کریں۔

جبری تبدیلیٔ مذہب کے واقعات کی روک تھام کے لیے کیا کرنا ہوگا؟

ڈاکٹر مہدی حسن کا خیال ہے کہ اقلیتوں کا مکمل تحفظ پاکستان میں ممکن ہی نہیں ہے۔ ان کے خیال میں یہاں جو شدت پسند مذہبی طبقہ ہے وہ بہت طاقت ور اور اثر و رسوخ رکھنے والا ہے۔

اُن کے بقول ہر حکومت چاہے وہ موجودہ ہو یا ماضی کی ایسے لوگوں کے ساتھ معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرلیتی ہیں جس کی وجہ سے یہ ان افراد کے خلاف کوئی ایکشن لے ہی نہیں سکتیں جو انہیں لینا چاہیے۔

دوسری جانب پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ پہلے تو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ یہ ایک مسئلہ ہے۔ لیکن ان کے خیال میں ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے۔

اُن کے بقول جبری تبدیلیٔ مذہب کے واقعات سے اقلیتوں کو تحفظ دینے کے لیے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی نے ابھی تک اس بارے میں کوئی ڈیٹا جمع نہیں کیا ہے۔ ان کے لیے یہ سب کچھ بہت آسان ہے کیوں کہ کمیٹی صوبوں کی پولیس کو اس بارے میں ڈیٹا فراہم کرنے کی ہدایت کر سکتی ہے۔

پیٹر جیکب کے مطابق اس مقصد کے لیے ایک بیانیہ بنانے کی ضرورت ہے جس سے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ مل سکتا ہے۔

اُن بقول ہر کسی کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے جو معاشروں کے لیے بہتر ہی ہوتا ہے۔ اگرچہ اس بارے میں کچھ کام تو ضرور ہوا ہے لیکن انفرادی طور پر یہ پیغام اب تک ہر شخص کے پاس نہیں پہنچا کہ ملک میں مذہبی تنوع اور برداشت معاشروں کے ارتقا اور ترقی میں ضروری عمل ہے۔

حکومت کا مؤقف

لیکن حکومت اس بارے میں یکسر مختلف رائے رکھتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے عہدے دار بارہا کہتے آئے ہیں کہ ملک میں جبری تبدیلیٔ مذہب کے واقعات میں بہت کم حقیقت ہے اور بیشتر کیسز میں باہمی رضا مندی کا عنصر کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے۔

اقلیتوں کو جبری تبدیلیٔ مذہب سے تحفظ کے لیے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ جبری تبدیلیٔ مذہب سے متعلق مجوزہ قوانین سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کو سفارشات مرتب کرنے کی استدعا کی گئی ہے جس کا الگ سے بل منظور کرایا جائے گا اور اس میں جبری تبدیلیٔ مذہب کی مکمل تعریف بھی موجود ہو گی۔

اکتوبر میں صوبہ سندھ میں مبینہ جبری تبدیلیٔ مذہب کی شکایات پر ان علاقوں کے دورے کے بعد کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات میں کسی حد تک فریقین میں باہمی رضامندی موجود ہوتی ہے تاہم انہوں نے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ رضامندی اور استحصال میں بہت باریک سا فرق ہے۔

ادھر وزیرِ اعظم پاکستان کے نمائندۂ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ ملک میں مذہبی قوانین کا غلط استعمال اور مذہب کی جبراً تبدیلی کے واقعات ہوتے ہیں۔ تاہم ان کے خیال میں حالیہ عرصے میں ایسے واقعات میں کمی آئی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ جبری شادیوں کے حوالے سے اقلیتوں میں پائے جانے والے خوف کو ختم کرنے کے لیے وزارتِ انسانی حقوق مؤثر قانون سازی پر مشاورت کر رہی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ریاست کسی فرد کی ذاتی خواہش کی تکمیل کے لیے دینِ اسلام کا نام استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں